صدقات نافلہ کی اہمیت

احکام اسلام کی بجاآوری ،عبدیت وبندگی کے تقاضوں کی تکمیل سے جہاں حق بندگی ادا ہوتا ہے وہیں خلق خداکی دستگیری اوراس کے دکھوں کا مداوابھی حق بندگی کا لازمہ ہے جس سے اللہ سبحانہ کوخوشی ہوتی ہے،حدیث پاک میں واردہے ’’اللہ سبحانہ کی مخلوق گویا ایک طرح سے اسکا کنبہ وقبیلہ ہے ،مخلوق میں اس کووہ بندے زیادہ محبوب ہیں جواس کی عیال(مخلوق) کے ساتھ حسن سلوک کریں ‘‘(المعجم الاوسط:۵۵۴۱)خلق خداکی خدمت اس کے کام آنے میں مالدارمال ودولت خرچ کر یں گے لیکن جواس قابل نہیں ان کوبھی چاہیے کہ وہ محنت ومزدوری کرکے مال کمائیں خود بھی فائدہ اٹھائیں اوراس میں سے کچھ خلق خداکو بھی فائدہ پہنچائیں،یہ بھی نہ کرسکیں تو کسی پریشان حال، محتاج بندہ کا کوئی رُکا ہوا کام کرکے اس کی مددکریں،اسکی استطاعت بھی نہ ہو تواپنی زبان سے کلمات خیراداکرکے دلوں کی تسکین کا سامان کریں،مصائب وآلام سے زخم خوردہ دلوں پرمحبت بھرے تسلی آمیزالفاظ سے مرہم رکھنے کا کام کریں،یہ بھی ممکن نہ ہوسکے تو کم سے کم نیکی وبھلائی کا درجہ یہ ہے کہ دوسروں کو ہماری ذات سے کوئی تکلیف وایذا نہ پہنچے یہ بھی یقینا صدقہ ہے(بخاری:۱۳۷۶) اپنا مال بندوں پرخرچ کرنے اوران کی مصیبتوں میں ان کے کام آنے پرکتاب وسنت میںبڑے فضائل واردہیں۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انفاق یعنی اللہ سبحانہ کے راستہ میں خرچ کرنے سے متعلق دریافت کرناچاہتے تھے،ان کی ترجمانی کرتے ہوئے حضرت عمروبن جموح رضی اللہ عنہ نے سوال کیا،ہم اپنے اموال سے کیا خرچ کریں اور خرچ کریں تو کہاں؟(حاشیہ شیخ زادہ ،علی تفسیر قاضی البیضاوی:۲؍۵۱۴)اس پرآیت پاک نازل ہوئی ’’آپ (ﷺ)فرمادیجئے!جوکچھ تم اپنے اموال سے خرچ کرووہ ماں باپ کیلئے ہے، اور رشتہ داروں اوریتیموں اورمسکینوں اور مسافروں کیلئے ہے،جوکچھ تم خیروبھلائی کے کام کرو وہ اللہ سبحانہ کے علم میں ہے‘‘(البقرۃ:۲۱۵) اس آیت پاک میں انفاق سے مرادصدقات نافلہ ہیں ،انسان کو اللہ سبحانہ فضل ومہربانی سے جوکچھ مال ودولت عطافرماتے ہیں وہ صرف اپنے ذات پر خرچ کیلئے نہیں بلکہ دوسروں کا بھی اس میں حق رکھا گیا ہے ،اس حق میں والدین کو تقدم حاصل ہے ،ان کی خدمت ودلداری اولاد کی اولین ذمہ داری ہے۔والدین کے بعددرجہ بدرجہ اوراعزہ واقرباء مستحق ہیں،اپنی اولاد اپنے والدین کی اولاد یعنی بھائی بہن،اوراپنے والدین کے بھائی بہن یعنی اعمام (چچائیں)،عمات(پھوپھیاں)،اخوال(ماموں)،خالات(خالائیں)،بنواعمام،بنوعمات، بنواخوال وبنوخالات یعنی چچازاد،پھوپھی زاد،ماموں زاد،خالہ زادوغیرہ سب ہمارے احسان وسلوک کے مستحق ہیں،ان کے بعدیتامیٰ،مساکین اورمسافرین امدادواعانت کے حقدار ہیں۔ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشادفرمایا گیا’’قل العفو‘‘یعنی آپ فرمادیجئے جو کچھ تمہاری ضرورتوں سے زائد ہو(اس کو خرچ کرو)(البقرۃ:۲۱۹)یہ ہدایت دراصل اخلاقی ہے ، زکوٰۃ کی فرضیت کے بعد اس کا درجہ وجوب کا نہیں رہا تاہم اس پر عمل باعث فضیلت ضرور ہے۔ لیکن اس کا افضل ہونا اس وقت ہے جبکہ اپنے اورزیرکفالت تمام افرادکی بنیادی ضرورتوں کا تکافل بہ آسانی ہو’’العفو‘‘کی تفسیر ان الفاظ سے کی گئی ہے : ما سہل وتیسر وفضل ولم یشق علی القلب اخراجہ(قرطبی:۳؍۶۱) بندگان خداکی مدد کیلئے زکوٰۃ کے علاوہ اورصدقات نافلہ کی ترغیب سے مقصودآسودہ انسانی سماج کی تشکیل ہے،اسلئے اللہ سبحانہ نے جن کوبے حدوحساب دولت سے نوازاہے ان کا صرف زکوٰۃ اداکرکے مطمئن ہوجانا ،خلق خدا پریشان حال ہوتو ان کے دردوکسک کومحسوس نہ کرنا انسانیت کے مغائر بھی ہے اور مومنانہ شعار اوربندگی کے تقاضوں کی تکمیل کے منافی بھی۔

ظاہر ہے ان کی دولت کا اقتضاء یہ ہے کہ وہ اپنے اطراف واکناف کا ضرور جائزہ لیں ،اعزہ واقرباء اورپاس پڑوس میں جو محتاج وتنگدست غرباء ومساکین بنیادی ضروریات سے محروم ہیں ان کے کفیل وکارسازبنیں اور کشادہ دلی کے ساتھ اپنا دست تعاون درازرکھیں۔زکوٰۃ کی فرضیت کیلئے صاحب نصاب ہونا اوراس پر سال گزرنا شرط ہے،لیکن صدقات نافلہ کیلئے ایسی کوئی شرط نہیں ، ایک موقع پرسیدنا محمدرسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا’’ان فی المال لحقا سوی الزکاۃ (ترمذی:۶۵۹)یعنی مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے ، پھرآپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی’’نیکی اوربھلائی صرف یہی نہیں ہے کہ تم اپنا چہرہ مشرق ومغرب کی طرف پھیرلوبلکہ اصل نیکی یہ ہے جواللہ پر ،آخرت پر،فرشتوں پر،اللہ کی کتاب پراورنبیوں پرایمان لائے اورجومال کی محبت کے باوجودرشتہ داروں،یتیموں ، مسافروں اور سائلین کودے ،غلاموں کوآزادی دلائے ،نمازقائم کرے اورزکوٰۃ اداکرے ،جب وعدہ کرے تواسے ضرورپوارکرے ،مصیبت وتنگدستی ،دکھ درداورتکلیف اورجہادکے وقت صبرسے کام لے ، یہی وہ لوگ ہیں جوسچے ہیں اوریہی لوگ پرہیزگارہیں ‘‘(البقرۃ:۱۷۷)یہودی چونکہ بیت المقدس کے مغربی حصہ کواورنصاری اس کے مشرقی حصہ کوبہ اعتبارقبلہ بڑی اہمیت دیتے اوراس پرفخروغرورکا اظہارکرتے۔مسلمانوں کیلئے تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوگیا تو اس پروہ لا یعنی اوربیہودہ اعتراضات کیا کرتے تھے ،اس آیت پاک میں اللہ سبحانہ نے ایک اہم اوربنیادی بات بیان فرمائی کہ نیکی محض مشرق اورمغرب کی سمت رخ کرلینے میں نہیں یہ تواسلام کی مرکزیت اورامت کی وحدت واجتماعیت کا مظہرہے ۔اصل تواعتقادات،معاملات،عبادات واخلاق کی اہمیت ہے۔اس آیت پاک میں ان کا احاطہ کیا گیاہے،رسول اکرم ﷺکا اس حدیث پاک میں اس آیت پاک کی تلاوت سے مقصودیہ ہے کہ مقررہ زکوٰۃ اداکردینے سے بات پوری طرح نہیں بن جاتی بلکہ خاص حالات میں زکوٰۃ اداکردینے کے باوجودصاحب ثروت اصحاب کی ذمہ داری خرچ کرنے کے حوالہ سے باقی رہتی ہے اس لئے زکوٰۃ کے علاوہ صدقات نافلہ میں اس بات کو ضرورملحوظ رکھیں کہ ضرورت مندمسلمان ہورشتہ داراورپڑوسی بھی ہوتو اس میں تین گنا زائدثواب ہے،یعنی اللہ سبحانہ کے راستہ میں خرچ کرنے پھراس میں رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے اورپڑوسیوں کا حق اداکرنے کا ثواب ملے گا،وہی مال اگرمسلمان رشتہ دارپرخرچ ہوتو اس کا دوہرا ثواب ہے۔ایک توصدقہ کا دوسرے صلہ رحمی یعنی حق قرابت کوملحوظ رکھنے کا(سنن النسائی:۲۵۸۲)پڑوسی اگر غیرمسلم ہواورغریب ونادارہوتوظاہرہے اس کی مددبھی اسلام کے اخلاقی آئین کی روسے مسلمانوں کافریضہ ہے۔خلق خداکی حاجت روائی اللہ سبحانہ کوبہت محبوب ہے،انسان تو انسان جانوروں پرترس کھانا بھی باعث رحمت ومغفرت ہے،حدیث پاک میں ایک گنہگارخاتون کا ذکر آیاہے کہ اس نے ایک پیاسے کتے کواپنے چمڑے کے موزہ سے کنویں سے پانی نکال کرپلایاجس پراللہ سبحانہ نے اسکی بخشش ومغفرت فرمادی۔کسی صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ (ﷺ)!کیا بہائم یعنی چوپایوں کے ساتھ ہمدردی کرنے میں بھی اجروثواب ہے؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: فی کل ذات کبد رطبۃ اجر۔ہاں !ہاں! بھوک وپیاس کا احساس رکھنے والی ہر مخلوق کی حاجت روائی میں اجرہے(بخاری:۳۱۴۳) اللہ کے راستہ میں مال خرچ کرنے اوردوسروں کے کام آنے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ اللہ سبحانہ ان کو اپنے خزانہ غیب سے نوازتے ہیں اوران کی دولت میں برکت ہوتی ہے،حدیث قدسی ہے’’اے ابن آدم!اپنا مال( میرے حاجتمند بندوں پر) خرچ کر،میں اپنی رحمت کے خزانوں سے تجھے دیتارہوں گا(بخاری:۴۹۳۳)کریم ومہربان ذات کی نوازشات بے کراں ہیں،مشاہدہ یہی ہے کہ خرچ کرنے والے خوب نوازے جاتے ہیں،لیکن اللہ سبحانہ کے وعدوں پرایمان وایقان شرط ہے،چنانچہ ایک اورحدیث پاک میں وارد ہے ’’صدقہ کرنے سے مال میں کسی طرح کی کمی نہیں آتی،بلکہ اس میں اوربرکت ہوتی ہے، معاف کردینے سے انسان کمتراوربے وزن نہیں ہوجاتا بلکہ اس کی عزت ووقار میں اضافہ ہوتا ہے،اللہ کیلئے تواضع وخاکساری اختیار کرنے سے سربلندی وسرفرازی نصیب ہوتی ہے‘‘ (مسلم: ۲۵۸۸)

خلق خداسے محبت کرنے اوران پررحمت ومہربانی نچھاورکرنے والوں کوجہاں دنیا میں آسودگی اورچین وسکون کی زندگی میسرآتی ہے وہیں ان کے صدقات وخیرات ،نیکیاں وبھلائیاں روزحشران کے حق میں سائبان رحمت بن جا ئیں گے جس کی وجہ اُس سخت ترین دن کی تپش وتمازت سے بچائو کا سامان ہوگا(مسند احمد:۱۷۳۵۱)اللہ سبحانہ کے راستہ میں جوخرچ کیاجائے وہی اللہ کے ہاں محفوظ ہے،ایک مرتبہ بکری ذبح کی گئی (اس کا گوشت ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا گیا ،پھرآپ ﷺ تشریف لائے تو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا :ما بقی منہا؟ کیا اس سے کچھ بچ رہ گیاہے،ام المومنین رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ایک دست بچاہے،آپ ﷺ نے یہ سن کرارشاد فرمایا: بقی منہا غیرکتفہا،یعنی اس دست کے علاوہ جواللہ کیلئے تقسیم کردیا گیا ہے وہی دراصل باقی ہے اورآخرت میں کام آنے والا ہے (ترمذی:۲۳۹۴)
ارشادباری ہے ’’جوکچھ تم نیکی وبھلائی سے اپنے لئے پہلے سے اللہ سبحانہ کے ہاں بھیج دیں وہی بہتر سے بہتر اوراجرکے اعتبارسے بہت زیادہ ہے‘‘(المزمل:۲۰)