صدر کی جانب سے تین مرتبہ مسترد کیا گیا بل گجرات اسمبلی میں منظور

احمد آباد ۔ 31 ۔ مارچ (سیاست ڈاٹ کام) گجرات اسمبلی نے آج ایک انتہائی سخت انسداد دہشت گردی بل کو منظوری دیدی جس میں ان متنازعہ حصوں کو برقرار رکھا گیا ہے جن کی بناء پیشرو صدر جمہوریہ نے دو مرتبہ اسے مسترد کردیا تھا۔ اس بل میں لفظ ’’دہشت گردی‘‘ کو شامل کیا گیا ہے۔ گجرات حکومت نے سب سے پہلے 2003 ء میں جب نریندر مودی چیف منسٹر تھے، یہ بل متعارف کیا تھا۔ اس وقت کے صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام نے 2004 ء میں اسے مسترد کردیا۔ اس کے بعد گجرات اسمبلی نے 2008 ء میں یہی بل دوبارہ منظور کیا لیکن اس وقت کی صدر پرتیبھا پاٹل نے بھی منظوری دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے باوجود حکومت نے پرتیبھا پاٹل کی مزید تبدیلیوں کی تجویز نظر انداز کردی اور 2009 ء میں تیسری مرتبہ اسے منظوری دی۔ تاہم اس بل کو ہنوز صدر جمہوریہ کی منظوری نہیں مل پائی تھی۔

گجرات کا متنازعہ انسداد دہشت گردی قانون جو 3 بار صدرجمہوریہ کی منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہا، آج گجرات کی ریاستی اسمبلی میں منظور کرلیا گیا۔ اِس قانون سازی کی دفعات کو جوں کا توں برقرار رکھتے ہوئے جیسے کہ فوج کو ٹیلیفون پر بات چیت ٹیاپ کرنے کے اختیارات اور بطور شہادت عدالت میں پیش کرنے کی گنجائش برقرار رکھتے ہوئے قانون کا نام تبدیل کردیا گیا ہے اور اِسے دہشت گردی اور منظم جرائم پر قابو پانے کے گجرات قانون 2015 کا نام دیا گیا ہے۔ گجرات کنٹرول آف ٹریژم اینڈ آرگنائزڈ کرائم (جی سی ٹی او سی) بل 2015ء اکثریتی ووٹ سے منظور کرلیا گیا جبکہ اپوزیشن کانگریس کی جانب سے اس کی بھرپور مزاحمت کی گئی۔ اسمبلی کے اجلاس سے اس قانون کی متنازعہ دفعات کے خلاف بطور احتجاج کانگریس نے واک آوٹ کیا اور کہا کہ یہ دفعات غیردستوری ہیں اور اس قانون کی منظوری صدر جمہوریہ کی توہین کے مترادف ہے۔ پولیس عہدیدار کے سامنے اعترافی بیان کو بطور ثبوت پیش کرنے کا دفعہ اور ملزم کو حراست میں رکھنے کی مدت جو فی الحال 90 دن ہے، اس میں اضافہ کرکے 6 ماہ کردی گئی ہے۔ فرد جرم عائد کئے بغیر کسی بھی ملزم کو 6 ماہ تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے،

جس کے دوران وہ ضمانت یا شخصی مچلکہ پر رہا بھی نہیں کیا جاسکتا۔ صدر جمہوریہ کی جانب سے گجرات کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم (بی یو جے سی او سی) بل کی 2004ء سے 3 بار صدارتی منظوری حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد جبکہ نریندر مودی گجرات کے چیف منسٹر تھے، حکومت گجرات نے یہ بل دوبارہ نئے نام کے ساتھ متنازعہ دفعات برقرار رکھتے ہوئے متعارف کروایا ہے۔ یہ قانون سابق صدرجمہوریہ عبدالکلام کی جانشین پرتیبھا پاٹل نے بھی 2008ء میں مسترد کردیا تھا۔ اسے ایک بار پھر 2009ء میں گجرات کی ریاستی اسمبلی میں منظور کیا گیا اور اسی وقت سے یہ قانون صدرجمہوریہ کی منظوری کا منتظر ہے۔ اسی قانون کو نیا نام دے کر ریاستی اسمبلی میں ریاستی وزیر مملکت برائے داخلہ رجنی کانت پٹیل نے دوبارہ متعارف کروایا ہے۔ کانگریس قائدین شنکر سنہہ واگھیلا اور شکتی سنہہ گوہل نے مطالبہ کیا تھا کہ اس کی متنازعہ دفعات حذف کردی جائیں، جیسا سابق صدرجمہوریہ نے تجویز پیش کرتے ہوئے قانون کو مسترد کردیا تھا۔ گوہل نے کہا کہ بعض دفعات غیردستوری ہے اور قانون سازی صدر جمہوریہ کے عہدے کی توہین کے مترادف ہے کیونکہ اس قانوج کو قبل ازیں صدور جمہوریہ نے مسترد کردیا تھا۔