صحبت کا اثر

دانش ایک ہونہار اور ذہین بچہ ہے وہ روزانہ پابندی سے اسکول جاتا ، وقت پر کام کرتا ، ممی پاپا اور اپنے بڑوں کا کہنا مانتا ہے ۔ اسکول کا سبق محنت سے یاد کرتا اور ہوم ورک بھی پابندی سے کرتا ہے ۔ اس لئے اسکول کے سبھی ٹیچرس اس سے خوش رہتے ہیں ۔اُس کے ممی پاپا بھی اس کو بہت پیار کرتے ہیں ۔ کچھ دن سے دانش کے ماسٹر صاحب نے اُس کے اندر ایک تبدیلی محسوس کی ۔
انہوں نے دیکھا کہ اب دانش نہ تو وقت پر اسکول ہی آتا ہے اور نہ اپنا سبق ہی یاد کرتا ہے حد تو یہ ہے کہ ہوم ورک بھی پابندی سے نہیں کرتا ۔ ماسٹر صاحب کے معلوم کرنے پر وہ روز ہی کوئی نہ کوئی نیا بہانا بنادیتا ۔ پہلے تو ماسٹر صاحب نے اسے زیادہ سنجیدہ نہیں لیا اور ہلکے پھلکے انداز میں اُس کو سمجھایا ۔ لیکن اس پر ماسٹر صاحب کی اس نصیحت کا زیادہ اثر نہ ہوا ۔ پھر انہوں نے دانش پر تھوڑی سختی بھی کرنا شروع کردی لیکن دانش اس سے راہ راست پر تو نہ آسکا اور سختی کا اس پر اُلٹا ہی اثر ہوا وہ اب اسکول سے غیرحاضر بھی رہنے لگا ۔ ماسٹر صاحب کو  یہ دیکھ کر بہت ہی افسوس ہوا ۔ ان کو دانش سے دلی محبت تھی اس کی اصلاح کرنے کی ٹھان لی ۔ اس لئے انہوں نے اس کے رپورٹ فارم پر تمام شکایتیں لکھ دیں اور اس کے ممی پاپا سے اسکول آکر بات کرنے کی ہدایت کردی ۔ دانش کے والد ظفر صاحب نہایت شریف اور بااخلاق انسان تھے ۔ دوسرے ہی دن وہ اسکول پہنچ گئے ۔ ماسٹر صاحب نے دانش کی تمام باتیں ان کے سامنے رکھ دیں اور پھر ظفر صاحب سے معلوم کیا ’’ اچھا آپ یہ بتایئے کہ آج کل دانش کس طرح کے بچوں کے ساتھ رہتا ہے ‘‘ ظفر صاحب نے بتایا ’’ ویسے تو اب بھی اس کے وہی دوست ہیں لیکن آج کل وہ اختر کے ساتھ زیادہ ہی رہتا ہے ہم لوگ اختر سے مطمئن نہیں ہیں وہ نہ تو اسکول ہی جاتا ہے اور نہ اس کے گھر کا ماحول ہی اچھاہے ‘‘ ۔ اس بات سے ہی ماسٹر صاحب نے اندازہ لگایا کہ دانش کے بگڑنے کی اصل وجہ اختر کے ساتھ اس کا رہنا ہے ۔ انہوں نے ایک ترکیب سوچی جس کے ذریعے وہ دانش کو راہ راست پر لاسکتے ہیں ۔ دوسرے دن جب دانش اسکول آیا تو ماسٹر صاحب نے بازار سے کچھ سیب منگائے اور دانش سے انہیں ایک الماری میں رکھوادیا ۔ اگلے دن انہوں نے دانش کو بلاکر الماری سے سیب منگائے اور دانش سے معلوم کیا ’’ دانش دیکھو اس میں سے کوئی سیب خراب تو نہیں ہوا ‘‘ دانش نے اچھی طرح دیکھ کر جواب دیا ’’ نہیں ‘’ اب ماسٹر نے ایک خراب سیب ان سیبوں میں ملا کر دانش سے پھر الماری میں رکھنے کو کہا دانش نے ایسا ہی کیا دوسرے دن جب اسکول کھلا تو ماسٹر صاحب نے پھر دانش کو بلا کر الماری سے سیب نے لانے کو کہا اور دانش سے معلوم کیا ، دیکھو آج تو سیب خراب نہیں ہوئے ۔ غور سے دیکھنے پر دانش کو حیرت ہوئی کہ آج سیبوں کا رنگ بھی بدلا ہوا اور ان میں خراب بو بھی آنے لگی ہے ۔ دانش نے ماسٹر صاحب کو یہ ساری بات بتائی اور ماسٹر سے معلوم کیا ’’ کل تک تو یہ سیب بالکل صحیح تھے آخر ایک ہی دن میں یہ اس قدر خراب کیسے ہوگئے ؟ ماسٹر نے کہا ’’ دانش تم نے دیکھا جب تک سب اچھے سیب رہے تو خراب نہ ہوئے لیکن ان میں ایک ہی خراب سیب ملادینے پر اس کا اثر دوسرے سیبوں میں آنا شروع ہوگیا ۔ بالکل اسی طرح جو بچہ اچھے بچوں کے ساتھ رہتا ہے وہ اچھا ، اگر وہ برُے بچوں کے ساتھ رہنے لگے تو سیبوں کی طرح وہ بُرا ہوتا ہے ۔