صاحب ہم دوہمارے دو نہیں ‘ مجھے چاہئے 8ویں اولاد

کینسر سے متاثرہ ایمس کی برس کی آٹھویں اولاد کی چاہت میں موت
نئی دہلی۔ملک ہی نہیں دنیا بھر میں علاج اور طبی خدمات یے لئے مشہور ال انڈیا انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسیس( ایمس) کی ایک نرس نے 8ویں اولاد کی چاہت میں کینسر کی جانکاری کے بعد بھی علاج میں تاخیر کے نتیجہ میں اسے موت کاسامنا کرنا پڑا۔ کیرل کی سپنا ٹریسی(43)اپنے اٹھویں بچے کو جنم دینا چاہتی تھی۔ اس کے لئے اس نے اپنا علاج ٹال دیا اور کی موت ہوگئی۔ خاتون چھاتی کے کینسر سے متاثر تھی۔سپنا نے ڈسمبر 2015میں اپنے اٹھویں بچے کو جنم دیاتھا۔ چھاتی کینسر کا صحیح وقت پر علاج نہ کرانے کی وجہہ سے پیر کو اس کی موت ہوگئی۔ سبھا بچوں کی عمر 15سال سے کم ہے۔ترشو کے چتلا گاؤں کے باشندے سپنا ٹریسی اور اس کا شوہر چلتا پلی جوجو ( 50)جیسیس یوتھ اور کتھولل کرشمائی رینیول تحریک کے سرگرم ممبر تھے۔

دہلی میں رہ کر ٹیسی یمس اور نس کا کام کرتی تھی اور جو جو وہیں ایک چرچ میں سماجی کارکن کے طور پر کام کرتا تھا۔گذشتہ کم سالو ں سے دونوں ہی چرچ کی ایک تحریک سے جڑے ہوئے تھے ۔ اس تحریک کے تحت لوگوں کو زیادہ بچے پیدا کرکے کنبہ بنانے پر ملک اور انسانیت کے مفاد میں مانا جاتا ہے۔ ایک طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ چرچ کے لوگوں کی ذہن سازی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کو مجبور کیاجاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں زیادہ سے بچے ہیدا کرکے کنبہ بڑھانے کے لئے فرید آباد کی ایک کتھولک چرچ نے اس جوڑ ے کو اعزاز بھی دیاتھا۔ٹریسی کے شوہر جوجو کے مطابق ہمارے اٹھویں بچے کے دوران جب ٹریسی تین مہینوں کی حملے تھی تو اسے چھاتی کے کینسر ہونے کا پتہ چلا ‘ ڈاکٹروں نے اسے حمل گرانے کی صلاح دی کیونکہ حمل میں کینسر کا علان ممکن نہیں تھا۔ اس نے کہاکہ ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر اپریشن نہیں ہوا تو اس کی جان جاسکتی ہے ۔

ہمارے دوستوں اور رشتہ داروں نے بھی اسے اسقاط حکم کرانے کی صلاح دی۔ لیکن وہ جنین کشی نہ کرنے کے اپنے فیصلے پر بضد رہی ۔ جوجو نے کہاکہ ڈاکٹروں نے اسے انتباہ دیا کہ اگر کسی ایک علاج صحیح وقت پر شروع نہیں ہوا تو اس کے 7بچے یتم ہوسکتے ہیں ۔ اس پر ٹریسی نے کہاکہ ’’ میں اس بچے کو جنم دے کر رہوں گی‘‘اگرمیں مر بھی گئی تو بھگوان اور دنیا میں کئی اچھے لوگ ہیں جو میرے 7بچوں کا خیال رکھیں گے۔ اس کے شوہر جو جو نے روتے ہوئے کہاکہ علاج کے لئے مسلسل منع کرنے کی وجہہ سے ٹریسی کا کینسر اتنا بڑھ گیا کہ حمل کے چھٹے مہینے میں ڈاکروں کو اس کی چھاتی کاٹ کر نکال نا پڑا۔ کینسر نہ پھیلے ڈاکٹر اس کے لئے کیموتھرپی کرنا چاہتے تھے مگر ٹریسی نے بچے کو جنم دینے تک کیموتھرپی سے انکار کردیا۔

بہرحال بچے کے جنم کے کچھ مہینے بعد اس نے ریڈیشن اور کیموتھرپی کرائی۔ وہ اپنے جان کو خطرے میں ڈال کر بھی زندگی بچانے میںیقین رکھتی تھی۔ اٹھ بچوں کو جنم دینے اور انہیں اپنی طاق پر پرورش کرنے والی ٹریسی کو دیکھ کر لوگ حیران ہوجاتے تھے ۔ تقریبا ایک سال قبل ڈاکٹروں نے بتایا کہ مریسی کا کینسر پھیپھڑوں میں بھی پھیل گیا ہے۔ اس کے بعد جو جو سبھی بچوں( پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں) کو لے کر کیرل کے اپنے گاؤں چلا گیا۔ جوجو نے بتایا کہ اس نے ہمیشہ اپنی بیوی پر بھروسہ کیا اور اس کے فیصلے کے ساتھ کھڑا رہا۔ اس نے کہاکہ ہمارے لئے زندگی کافی اہم ہے ۔ قتل کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں۔ اسقاط حمل کراکے کینسر کا علاج نہ کرانے کا فیصلہ صحیح تھا۔ جوجو نے کہاکہ اگر ٹریسی زندہ اور صحت مند ہوتی تو ہم اور بچے پیدا کرتے۔

آبادی بڑھنے سے ملک ترقی کرے گی۔ کیتھولک بشپ کاؤنسل فیمی کمیشن کے سکریٹری فادر پال نے کہاکہ ’ ہم ‘ سارتھک جیون کی سوچ کوفروغ دیتے ہیں اگر جوڑا صحت مند ہے اور بڑا کنبہ چلانے کے اہل ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنا چاہئے۔ انہو ں نے آگے کہاکہ سات ‘ اٹھ یا اس سے زیادہ بچے پیدا کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ ادھر ایمس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رندیپ گلیر یا نے حیرانگی ظاہر کی۔ انہو ں نے کاکہاکہ کچپ بچے تو اس کے ایمس میں ہوئے جبکہ کچھ کیرال میں ہمیںیہ پتہ تھا کہ اس کی اتنی تعداد میں اولاد ہے