شیخ چلّی نے چوڑ پکڑا

شیخ صاحب گھر میں اکیلے تھے۔ گرمی کے دن تھے۔ آموں پر بر آچلا تھا۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔ شیخ چلی رات کا کھانا کھا کے صحن میں چار پائی پر سو گئے۔ تھوڑی دیر بعد اچانک ان کی آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ اچانک ایک دبلا پتلا سا آدمی شیشم کے پیڑ کے سہارے آہستہ آہستہ اتر رہا ہے۔ وہ دبے پاؤں شیخ چلی کی چار پائی کی طرف بڑھا اور ان کے سرہانے آ کے کھڑا ہوگیا۔ شیخ صاحب پہلے تو خاموش رہے جب یہ اطمینان ہوگیا کہ اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے تو ہاتھ بڑھا کے اس کی کلائی پکڑ لی۔ چور نے ہاتھ چھڑانے کیلئے بڑے جتن کئے پر شیخ کے پنجے میں کلائی تھی۔ جب وہ ہاتھ پاؤں مار کے تھک گیا تو شیخ چلی اٹھے اور کہنے لگے تو اس بستی کا رہنے والا تو معلوم نہیں ہوتا۔ کہیں باہر سے آیا ہے۔

چور نے ان کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور سر جھکائے چپ چاپ کھڑا رہا۔ شیخ جی بولے، جی تو چاہتا ہے کہ جوتے مار کے تجھے فرش کردوں لیکن تجھ جیسے کمزور آدمی پر ہاتھ اٹھاتے شرم آتی ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہیکہ تجھے کوتوال کے حوالے کردیا جائے یہ کہہ کر اسے کھینچتے ہوئے شہر کی طرف لے چلے۔ گھر سے کوئی آدھ میل گئے ہوں گے کہ خیال آیا۔ پگڑی تو گھر میں ہی رہ گئی ہے۔ کوتوال سے ننگے سر ملے تو وہ کیا کہے گا۔ یہ سوچ کے چور سے کہنے لگے تو یہیں ٹھہر میں گھر سے پگڑی لے آؤں گا۔ چور کو ایسا موقع کیا مل سکتا تھا ؟ شیخ چلی نے گھر کا رخ کیا اور وہ نو دو گیارہ ہوگیا۔ تین چار راتوں کے بعد پھر وہی چور شیخ چلی کے پاس پہنچا اور پھر پکڑا گیا۔ شیخ چلی اسے گھسیٹتے ہوئے شہر کو چلے تو راستے میں یاد آیا کہ اب کے پھر پگڑی صحن ہی میں پڑی رہ گئی ہے۔ سوچا خود پگڑی لینے جاتا ہوں تو چور بھاگ جائے گا۔ اس لئے چور سے کہنے لگے تو جا کے میری پگڑی لے آ میں یہیں تیرا انتظار کرتا ہوں۔