شیخ الأحقاف سیدنا الامام وجیہہ الدین سید عبدالرحمن السقافؒ

مولانا حبیب سہیل بن سعید العیدروس
آپ کا نام سید عبدالرحمن اورلقب السقاف ، وجیہہ الدین ہے اور شیخ عبدالرحمن السقاف سے معروف ہوئے ۔ آپؒ کو ’’السقاف‘‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ آپؒ نے اپنی حقیقی حالت درجۂ ولایت کو تواضع اور عاجزی کی چھت تلے چھپادیا تھا اور شہرت ، نام و نمود سے اجتناب کرتے تھے لیکن اس زمانے کے عارفین و صالحین آپؒ کی ذات کو ان کی ولایتوں پر چھت و سائبان کی طرح مانتے تھے لہذا آپؒ کو السقاف سے ملقب کیا گیا ۔ آپ کو اپنے جد سیدنا الفقیہ المقدم محمد بن علیؓ کی طرح جان کر ’’المقدم الثانی‘‘ کے لقب سے بھی پکارا جاتا تھا ۔ آپؒ کی ولادت ۷۳۹؁ھ میں حضرموت کے شہر تریم میں ہوئی ۔ بچپن میں ہی حفظ قرآنِ مجید سے فارغ ہوچکے تھے اور علوم اسلامیہ کے حصول میں مشغول ہوئے ۔ علم کی پیاس اتنی تھی کہ نہ صرف کتب کا سبق حاصل کرتے بلکہ انہیں یاد کرلیا کرتے تھے ۔ آپ نے ابواسحق کی ’’التنبیہ‘‘ اور ’’المھذب‘‘ ، اسام غزالی کی ’’البسیط‘‘ ، ’’الوسیط‘‘ ، ’’الوجیز‘‘ ، ’’الخلاصۃ‘‘ ، ’’احیاء العلوم الدین‘‘ کو پڑھا اور یاد فرمالیا تھا ۔ اسی طرح رافعی کی ’’العزیز شرح الوجیز‘‘ اور ’’المحرر‘‘ وغیرہ اور مختلف کتبِ تصوف کو بھی پڑھا اور یاد فرمالیا۔ آپؒ کے اساتذۂ کرام میں شیخ محمد بن علوی بن احمد الفقیہ ، شیخ الامام محمد بن ابوبکر باعباد، شیخ الفقیہ الامام محمد بن سعید ابوشکیل اور والد ماجد سید محمد مولیٰ الدویلۃ قابل ذکر ہیں۔ آپؒ کی غیرمعمولی صلاحیتوں کو دیکھ کراساتذۂ کرام آپؒ پر تمام طلباء سے زیادہ متوجہ رہتے اور شیخ عبدالرحمن السقاف اپنی تعلیم میں سب سے زیادہ فہم و فراست اور یدطولیٰ رکھتے تھے ۔ علوم ظاہری کے ساتھ ساتھ باطنی علوم میں بھی آپؒ سب کے امام ٹھہرے ۔ آپؒ کے مجاہدات بہت اعلیٰ و عجیب ترین تھے ۔ آپؒ اس مقام پر جاپہنچے تھے کہ روزمرہ کی مصروفیات کے ساتھ صبح چار مرتبہ اور شام کو چار مرتبہ روزآنہ مکمل قرآن تلاوت فرمایا کرتے ۔شیخ عبدالرحمن السقافؓ ایک ایک اور دو دو ماہ سیدنا ھود علیہ السلام کی مزار پر اپنی کتابوں اور قلیل توشہ کے ساتھ جاکر خلوت نشینی میں گذاردیا کرتے تھے ۔

غیل باوزیر ، شحراور عدن جیسے مختلف مقامات پر وقت گزارنے کے بعد جب شیخ عبدالرحمن السقافؓ اپنے شہر تریم لوٹے تو آپؒ کی ذات ظاہری و باطنی علوم کی جامع و غماز بن چکی تھی اور کسی میں آپؒ کے سامنے ٹھہرنے کی جسارت نہ ہوتی ۔ بعد ازاں آپؒ نے تعلیم و تربیت کا آغاز فرمایا تو آپؒ کی خاص کر توجہ طلباء کی باطنی ارتقاء پر ہوتی جو دنیا بھر سے جوق در جوق آپؒ سے استفادہ کی غرض سے حاضر ہوا کرتے ۔ اس عمل نے طریقت باعلویہ کو مزید مضبوطی فراہم کی جس کی بنیاد سیدنا الفقیہ المقدم محمد بن علی باعلویؓ نے رکھی تھی۔ آپؒ نے فرمایا : ’’ ہر علم بغیر عمل کے بے معنی ہے ، ہر علم و عمل بغیر نیت کے ناکارہ و بے کار ہے ، ہر علم ، عمل اور نیت جو سنت کے خلاف یا متابعت میں نہ ہو وہ مسترد اور نامنظور ہے اور ہر علم ، عمل اور نیت جو سنت کے مطابق ہے لیکن اس میں جن احتیاط اور آگاہی و دوام نہیں ہے تو عین ممکن ہے کہ اس سے کچھ نفع حاصل نہ ہو ‘‘ ۔
اپنے آباء و اجداد کی طرح آپ کو بھی سماجی خیرخواہی اور خدمتِ خلق کی عادت تھی ۔ آپؒ نے لاتعداد کھجور کے درخت لگائے اور ہر درخت لگاتے وقت کم از کم سورۂ یٰسٓ یا مکمل قرآن تلاوت فرماتے تھے ۔ شیخ عبدالرحمن السقافؒ نے حضرموت کے مختلف مقامات پر دس مساجد تعمیر کروائیں، جن میں سے مشہور ترین شہر تریم کے مسجد السقاف ہے۔

ہر چہارشنبہ اور اتوار کی شب آپؒ حضرۃ ( حلقۂ ذکر ) منعقد فرمایا کرتے جس میں اکابر شیوخِ طریقت کے قصائد کو خاص انداز سے پڑھا جاتا جو کہ آج تک جاری ہے ۔ آپؒ کے زمانے ، آپ سے زیادہ مشہورحال ، واقفِ اسرار اور باطنی انوار سے سرشار کوئی نہ تھا ۔ سیدنا شیخ ابوبکر السکرانؓ نے فرمایا : شیخ عبدالرحمن السقافؒ کا مقام اولیاء میں اسی طرح ہے جس طرح سیدنا رسول اﷲ ﷺ کا مقام تمام انبیاء میں ہے۔
وصال : سیدنا شیخ عبدالرحمن السقافؒ اپنے آخری عمر کے حصے میں بھی اکثر اوقات عبادت میں محافلِ ذکر کے انعقاد میں گزاردیتے ۔ جب وفات کا وقت قریب آیا تب آپ نے خود اپنے چہرے کو قبلہ رُو کیا اور حضور ﷺ اور اجداد کی حاضری میں روحِ مقدسہ جسمِ مبارک سے جدا ہوئی ۔ ۲۳؍ شعبان ۸۱۹؁ھ جمعرات کا دن گزرنے کے بعد وصال ہوا اور دوسرے روز جمعہ کے دن تریم کے قبرستان زنبل میں تدفین عمل میں آئی ۔
سیدنا شیخ عبدالرحمن السقافؒ کے پوتے سیدنا الحبیب عبداﷲ وہ شخصیت تھے جنھیں سب سے پہلے العیدروس لقب دیا گیا اور اس طرح یہ لقب ان کی ذریت میں جاری رہا ۔ سیدنا حبیب عیدروس بن حسین العیدروسؒ مدفون خطۂ صالحین کا شجرۂ نسب و طریقت تیرہویں(۱۳) پشت میں آپؒ سے جاملتا ہے۔