شوگر کی قسم دوم کا غذائی علاج ممکن ہے

فروری 2012ء کی بات ہے، مشہور برطانوی اخبار ’’گارڈین‘‘سے وابستہ پچاس سالہ صحافی رچرڈ ڈائوٹی (Richard Doughty) اپنا طبی معائنہ کرانے ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ اس کا وزن کچھ زیادہ تھا لیکن مجموعی طور پر رچرڈ نے خود کو فٹ رکھا ہوا تھا۔ وہ باقاعدگی سے کرکٹ کھیلتا اورشراب کوکبھی منہ نہ لگاتا۔ خود کو تندرست سمجھنے کے باعث ہی جب ڈاکٹر نے رچرڈ کوبتایا کہ وہ ذیابیطس قسم 2میں مبتلا ہو چکا، تو وہ حیران رہ گیا۔

ڈاکٹر نے پھراِس موذی بیماری سے متعلق جو نکات بیان کئے وہ سن کر رچرڈخوفزدہ ہوگیا۔ مثلاً اگلے دس سال میں ممکن تھا کہ اسے انسولین لگوانی پڑے۔ بیماری اس کی آنکھوں، پیروں، کانوں اور دل کومتاثر کرسکتی تھی۔ نیز یہ کہ اس کے جلد مرنے کا امکان ہو چلا تھا۔ تاہم آخر میں ڈاکٹر نے ایک خوش خبری سنا کر رچرڈ کا خوف قدرے کم کر دیا۔

دراصل رچرڈ زیادہ فربہ نہیں تھا۔ لہٰذا ڈاکٹر نے اسے بتایاکہ وہ چاہے، تو غذا کے ذریعے اپنا علاج کر سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ ادویہ کے بجائے غذا سے اسے تندرستی مل جائے اور وہ ذیابیطس قسم 2سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب رہے۔
ذیابیطس کی دو اقسام ہیں۔ اوّل قسم میں ہمارا جسم انسولین ہارمون پیدا ہی نہیں کرتا جو ہمارے خون میں شکر کی سطح کنٹرول کرنے کا ذمہ دار ہے۔قسم دوم میں انسولین بہت کم جنم لیتا ہے۔ اس لئے وہ بھی اپنا کام موثر طور پرانجام نہیں دے پاتا۔ دونوں اقسام کے مریضوں میں جب شکر (یا گلوکوز) کی سطح بڑھ جائے، تووہ اندرونی اعضا کونقصان پہنچاتی ہے۔

رچرڈ نے جب سنا کہ غذا سے علاج ممکن ہے تو وہ انٹرنیٹ میں تحقیق کرنے لگا۔ مدعا یہ تھا کہ ایسا غذائی چارٹ ڈھونڈ سکے جس پر عمل کرنا آسان ہو۔ آخر اسے نیو کاسل یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر رائے ٹیلر کا علم ہوا۔پروفیسر ٹیلر نے ذیابیطس قسم 2 میں مبتلا ایسے مرد و زن کے لئے ایک غذائی چارٹ ترتیب دیا تھا جو ادویہ سے دور رہنا چاہتے ہوں۔ اس چارٹ کے تحت آٹھ ہفتوں تک روزانہ صرف 800 حراروں پر مشتمل غذا کھانا تھی۔ یاد رہے، ایک صحت مند بالغ انسان عموماً 2000 تا 2500 حراروں پر مبنی غذا کھاتا ہے۔

رچرڈ نے اپنے ڈاکٹر کی راہنمائی میں اس غذائی چارٹ پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے گلوکوز ٹیسٹ کرنے والا آلہ خرید لیا تاکہ گھر پر ہی دوران تجربہ وہ اپنے خون میں شکر کی سطح بھی چیک کرتا رہے۔
غذائی شیڈول بڑا سخت تھا … رچرڈ کو روزانہ تین لیٹر پانی نوش کرنا تھا۔ حراروں پر مبنی یخنیاں (سوپ) اور شیک پینے تھے۔ جبکہ 200حرارے سبزیوں و پھلوں سے پانے تھے۔ ساتھ ساتھ اس نے ورزش بھی کرنا تھی تاکہ شیڈول کا بھرپور فائدہ حاصل ہو سکے۔جب انسانی جسم کومطلوبہ مقدار میں کھانا نہ ملے، تو وہ توانائی حاصل کرنے کی خاطر چکنائی کے اپنے ذخائر استعمال کرتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اعضا کے اندرجمع چربی استعمال ہوتی ہے۔

پروفیسر ٹیلرکا خیال تھا کہ جب پتّے کے آس پاس چربی جمع ہوجائے، تووہ انسولین بنانا چھوڑ دیتا ہے۔ لہٰذا انسان کم غذا کھائے اور ورزش کرے تو پتّے کی چربی گھل جاتی ہے۔ یوں وہ دوبارہ انسولین پیدا کرنے لگتا ہے۔یہی نظریہ سامنے رکھ کر پروفیسر موصوف نے اپنا غذائی شیڈول تشکیل دیا۔

ظاہر ہے شروع میں کھانے کے نئے چلن سے ہم آہنگ ہوتے ہوتے رچرڈ کو بڑی دشواری پیش آئی۔ تاہم جب کبھی اسے بھوک ستاتی وہ پانی پی کر اسے ختم کر ڈالتا۔ تیسرے دن اس کا وزن کم ہونے لگا۔ تاہم اس کے خون میں گلوکوز کی سطح 6ایم ایم (ملی مولز) فی لیٹر سے زیادہ رہی۔ (یاد رہے ایک صحت مند انسان جوذیابیطس کا مریض نہیں ہوتا، اس کے خون میں گلوکوز یا شکر کی زیادہ سے زیادہ مقدار 6ایم ایم فی لیٹر رہتی ہے)
چوتھے دن رچرڈ نے دس گھنٹے فاقہ کیا۔ تب اس کے خون میں گلوکوز کی سطح 40ایم ایم فی لیٹر ہو گئی۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ لیکن چھٹے دن وہ سردی محسوس کرنے لگا حالانکہ ماہ جون کا گرم مہینہ چل رہا تھا۔ حتیٰ کہ اسے جیکٹ پہننی پڑی تاکہ سردی سے بچ سکے۔ اس عجیب مشکل کے باوجود رچرڈ کا وزن خاصی تیزی سے کم ہورہا تھا۔

آٹھویں دن دفتر کے ساتھی اسے’’گم ہوتاآدمی‘‘ کے خطاب سے پکارنے لگے۔ وزن کی کمی نے اسے دوسروں کی نگاہوں میں کمزور بنا دیا تھا۔ نویں دن قبض اس سے چمٹ گیا۔ تاہم مْسہل دوا کے بروقت استعمال سے یہ موذی مرض جاتا رہا۔
ڈاکٹرکی ہدایت پررچرڈ نے نویں دن یعنی آٹھ روز بعد معمول کا کھانا کھایا اور چاولوں کے ساتھ مچھلی اڑائی۔ اس نے مزید دو دن پروفیسر ٹیلر کے غذائی شیڈول پر عمل کیااور پھر مضرصحت غذائوں سے بچتے ہوئے معمول کا کھانا کھانے لگا۔رچرڈ کو صرف دو ماہ انتظار کرنا پڑا، لیکن آخراسے خوش خبری مل گئی۔ ڈاکٹرنے ٹیسٹ کیا، تو اس کے خون میں گلوکوز کی مقدار 5.1ایم ایم فی لیٹر پائی گئی۔ یہ 6کے عدد سے کافی نیچے تھی۔ چناںچہ ڈاکٹر نے خوش ہوکر اسے بتایا ’’آپ ذیابیطس سے چھٹکارا پاچکے۔‘‘

یوں رچرڈ نے صرف گیارہ دن ذیابیطس ختم کرنے والے غذائی شیڈول پرعمل کیا اوراس خطرناک بیماری سے پیچھا چھڑا لیا۔ تقریباً ایک سال گزر چکا، اس کے خون میں شکر کی سطح معمول پر ہے۔
رچرڈ ہی نہیں دیگر مرد وزن بھی محض غذائی شیڈول پر ثابت قدمی سے عمل کرنے پر ذیابیطس قسم 2سے نجات پا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر 53سالہ امریکی شہری، کارلوس سیروینتس (Carlos Cervantes) کو لیجیے جو قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھا تھا۔
2011ء کے موسم بہار میں جب کارلوس ہارٹ اٹیک کا نشانہ بنا، تو وہ 120کلو وزن رکھتا تھا۔ اس کی بینائی متاثر ہوچکی تھی اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ رہے تھے۔ خدشہ تھا کہ اگرخون میں شکر کی سطح کنٹرول نہ ہوئی تو اس کا ایک پیر کاٹنا پڑے گا۔

حتیٰ کہ کارلوس کے کانوں میں پھپھوندی پیدا ہوگئی جو جسم میں شکر کی انتہائی بلند سطح کا نتیجہ تھا۔انہی دنوں اس نے ٹی وی پر پروفیسرٹیلر کے غذائی منصوبے کا پروگرام دیکھا۔ آخری چارہ کار کے طور پرکارلوس روزانہ صرف 600حراروں والی غذا کھانے لگا۔ اس نے کاربوہائیڈریٹ اور چکنائی پر مبنی سارے کھانے ترک کر دیے۔ صرف سبزی، پھل اور روکھا گوشت کھانے لگا۔ دو ماہ میں اس کا وزن ’’40کلو‘‘ کم ہوگیا۔ اٹھارہ ماہ بعد کارلوس کا ذیابیطس جاتا رہا اور اسے تندرستی نصیب ہوئی۔

اسی طرح 67سالہ ہنری کول نے بھی 600حراروں پرمبنی غذائی منصوبہ بنایا لیکن من پسند غذائیں کھائیں۔ نیز روزانہ ڈیڑھ لیٹرپانی پیتا رہا۔ اکثر وہ شام چھ بجے کھانا کھاتا۔ تین ماہ میں اس کا وزن 80کلو سے 70کلو رہ گیا۔ نیز خون میں شکر کی سطح بھی معمول پر آگئی۔

دیگر سائنس دان اب اس غذائی طریق علاج پرمزید تحقیق کر رہے ہیں۔ یہ توثابت ہوچکا کہ مخصوص غذائیں ذیابیطس قسم 2کو ماربھگاتی ہیں۔ اس ضمن میں وہ مزید تجربات کرنا چاہتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر قارئین میں سے یا اُن کا کوئی عزیز ذیابیطس قسم 2کا شکار ہے اور وہ بھی غذائی طریق علاج اپنانا چاہے، تو بہتر ہے کہ پہلے کسی ماہر غذائیات سے مشورہ کرلے۔ ممکن ہے دوا کے بجائے غذا ہی سے تندرستی مل جائے۔