شوگر اور صحتمند زندگی

قسط اول
شوگر کے مریضوں کے لئے غذائی حکمت عملی یہ ہے کہ انہیں بہر طور متوازن غذا ملے اور متوازن غذا کا مطلب یہ ہے کہ انہیں کاربو ہائیڈریٹس، پروٹین، چکنائی، وٹامنز، معدنی اجزاء وغیرہ کی مناسب مقدار یقینی طور پر روزانہ ملتی رہے۔ علاوہ ازیں غذائی حکمت عملی کے تحت انہیں اس قدر کیلوریز ملتی رہیں ، جومتعلقہ فرد کی عمر، جنس اور روز مرہ جسمانی سرگرمیوں کے مطابق ہو۔ شوگر کے مریضوں کی غذا میں ردو بدل بنیادی طور پر کاربوہائیڈریٹس کے روزانہ حصوں میں کیا جاتا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ان کی مطلوبہ مقدار دن بھر کے کھانے میں اس طرح مساوی تقسیم ہو کہ مریض کے میٹا بولک نظام پر بھی بوجھ نہ پڑے اور گلوکوز کی ضروری مقدار میں بھی کمی نہ آئے۔ معمول کے مطابق جب ہم کاربوہائیڈریٹس ہضم کرتے ہیں تو سب سے پہلے وہ ٹوٹ پھوٹ کر گلوکوز میں تبدیل ہوتے ہیں اور پھر دماغ اور جسم کے دیگر حصوں کے استعمال میں آتے ہیں۔ اضافی کاربوہائیڈریٹس کو گلائی کو جن میں تبدیل کرکے بعد میں استعمال میں لانے کے لیے جسم ذخیرہ کرلیتا ہے۔

شوگر کے مریض کاربو ہائیڈریٹس کو اس طرح استعمال میں لانے کی اہلیت نہیں رکھتے کیونکہ اس عمل کے لئے انسولین کی ضرورت ہوتی ہے اور شوگر کے مریض مناسب مقدار میں انسولین پیدا نہیں کررہے ہوتے۔ چنانچہ ایسے مریضوں کے خلیے گلوکوز کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اگر کسی ایک کھانے میں کاربو ہائیڈریٹس زیادہ مقدار میں کھا لیے جائیں تو بلڈ شوگر لیول بڑھ جاتا ہے اور کچھ گلوکوز پیشاب میں خارج ہونے لگتا ہے۔

شوگر کے مریضوں کے کھانوں میں ایسی غذائیں شامل کرنے پر توجہ دی جاتی ہے جو کاربوہائیڈریٹس کی زیادہ مقدار پر مشتمل نہ ہوں۔ کاربوہائیڈریٹس سادہ یا پیچیدہ اقسام کے ہوتے ہیں لیکن تمام کاربوہائیڈریٹس ایک، دو یا مختلف شوگر مالیکیولز سے بنے ہوتے ہیں۔ ان مالیکیولز کا باہمی تعلق جتنا چھوٹا ہوتا ہے وہ اسی تیزی سے جسم میں جذب ہوجاتے ہیں۔ پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس کے مالیکیولز آپس میں لمبے تعلق سے جڑے ہوتے ہیں چنانچہ ان کی ٹوٹ پھوٹ اور انجذاب سادہ کاربوہائیڈریٹس کے برعکس آہستہ، سست اور بتدریج ہوتا ہے۔ چونکہ یہ کاربوہائیڈریٹس اپنے شکری اجزاء خون میں آہستہ آہستہ شامل کرتے ہیں اس لیے انگریزی میں انہیں ’’سلو ریلیزنگ‘‘ کاربوہائیڈریٹس کہا جاتا ہے۔ ان کے برعکس سادہ کاربوہائیڈریٹس کو ہضم ہونے میں بہت کم وقت لگتا ہے اور وہ تیزی سے گلوکوز میں تبدیل ہوجاتے ہیں چنانچہ ان کے استعمال سے بلڈ گلوکوز لیول تیزی سے بڑھ جاتاہے۔ اسی لئیانہیں ، فاسٹ ریلیزنگ کاربوہائیڈریٹس کہتے ہیں۔

شوگر کے مریضوں میں گلوکوز کے انجذاب کانظام خلل کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے متعلقہ پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ‘‘سلو ریلیزنگ’’ یا پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس روز مرہ غذاؤں میں دیئے جاتے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہوتا ہے انہیں فاسٹ ریلیزنگ یا سادہ کاربوہائیڈریٹس سے دور رکھا جاتا ہے۔
کوئی ایک غذا فاسٹ ریلیزنگ ہے یا سلو ریلیزنگ، اس بات کا انحصار متعدد دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ شوگر کی اس قسم پر بھی ہے جو اس غذا میں پائی جاتی ہے۔ اس میں موجود غذائی ریشہ شوگر کے اخراج کو سست بنا دیتا ہے۔ چنانچہ یہی خوبی مکمل غذاؤں کو پسی ہوئی غذاؤں کی نسبت بہتر انتخاب بناتی ہے۔ تازہ پھل جن میں غذائی ریشہ بھی ہوتا ہے اسی لئے جوسز کی نسبت بہتر غذا قرار دیے جاتے ہیں۔ پروٹین کی موجودگی بھی غذاؤں کو گلائی کیمک انڈیکس میں کم اسکور دلاتی ہے۔ مسور اور دیگر دالوں کے ساتھ ساتھ پھلیاں بھی پروٹین اور ریشہ رکھتی ہیں۔ مختصر ترین بات یہ ہے کہ شوگر کے مریض کو درپیش پیچیدگیاں غذائی حکمت عملی سے روکی یا کم از کم قابو میں رکھی جاسکتی ہیں۔
…سلسلہ جاری ہے