ششی تھرور نے اپنے الفاظ سے صحیح جگہ پر چوٹ پہنچائی ہے۔

ششی تھرور ایک مایہ ناز مصنف بھی ہیں ‘ جن کی حالیہ کتاب’میں کیوں ایک ہندو ہوں‘ کی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہورہی ہے۔ مذکورہ کتاب میں وہیں ایک جانب انہوں نے اپنے ہندو روایتوں جو روداری پر مشتمل ہے کو پیش کیاہے‘ اگرچہ کہ ذات پات کے اہم مسائل کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا‘ تووہیں دوسری جانب ہندوتوا‘ ہندوقومیت کو انہو ں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے‘ او ربتایا کہ ہندو قومیت دراصل جدوجہد آزادی اور دستور ہند کے عین خلاف ہے۔

انہوں نے اپنے حالیہ تبصرے سے ایک تنازعہ کو ہوا دی تھی کہ’’ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) کو دوبارہ اقتدار کے لئے ووٹ دیاگیاتو وہ دستور میں تبدیلی لائیں گے جس سے بالآخر ایک ’’ہندوستان پاکستان‘‘ بن جائے گا۔

اس تبصرے کی وجہہ سے بی جے پی نے اپنے ردعمل میں تھرور کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ انہوں نے پاکستان سے تقابل کرکے ہندوستان کی توہین کی ہے او ران کا یہ بیان ہندوؤں کی توہین ہے۔

اے بی وی پی کے کارکنوں نے ترونینتھاپورم میں ان کے دفتر پر بھی حملہ کیا۔ششی تھرور نے مزیدکہاکہ’’ اگر یہ لوگ دوبارہ لوک سبھا میں اسی طاقت کے ساتھ اپنی جیت دہرانے میں کامیاب رہے تو یقیناًہمارے جمہوری دستور ‘ جس کو ہم سجھتے ہیں وہ باقی نہیں رہے گا۔کیونکہ ان کے پاس وہ تمام جواز موجود رہے ہیں جس کی ضرورت دستور کو پھاڑ نے اور نیا دستور لکھنے کے لئے لازمی ہے‘‘۔

انہوں نے کہاتھاکہ’’ اور یہ ہندوراشٹرا کے ان اصولوں کو مرتب کرے گا جس میں اقلیتوں کے ساتھ مساوات کو ختم کردیاجائے گا‘ اور یہی ہندو پاکستان کی تشکیل ہوگی۔ اور اس کے لئے مہاتما گاندھی‘ نہرو‘ سردار پٹیل او رمولانا آزاد اور جنگ آزادی کے عظیم ہیرو یہ جدوجہد نہیں کی تھی‘‘۔

تھرور کے مطابق اقلیتو ں کے حقوق جو دستور نے دئے ہیں وہ بی جے پی آر ایس ایس کی اسکیم میں ختم کردئے جائے گے۔ وہیں کانگریس پارٹی نے ششی تھرور کے اس بیان سے خود کو دوررکھنے کاکام کیا ہے ‘ دراصل اس کی حقیقت کیاہے؟

پاکستان کے لئے یہ منطق کیوں؟
تقسیم ہند انگریزوں کی ’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ پالیسی کا حصہ تھا۔ انگریزوں نے ہندوستان کے فرقہ وارانہ ڈھانچہ کی بنیاد پر اس منصوبہ کو زمینی حقیقت سے جوڑنے کاکام کیا۔

ہندوقوم پرست وی ڈی ساورکر نے پہلی مرتبہ دوملکی نظریہ کی بات کرتے ہوئے کہاتھا کہ ملک میں دوقوم ہیں ایک ہندو او ردوسرے مسلمان۔ساورکر کے مطابق ہندواس ملک کے اصل باشندے ہیں وہ اس کی نگرانی کریں گے۔

اسی طرح کی منطق مسلم لیگ جناح نے اپنے سر لیتے ہوئے مسلمانوں کے لئے علیحدہ ملک پاکستان کی تشکیل پر زوردیا۔وہیں جناح کا قوم پرستی کے متعلق رویہ کافی پیچیدہ تھا‘ انہو ں نے کہاتھا کہ پاکستان میں لوگ اپنے مذہب پر عمل کرنے میں مکمل طور پر آزاد رہیں گے۔

مگر پاکستان کا قیام فرقہ وارانہ اساس پر عمل میںآیاتھا‘ آہستہ آہستہ اس ملک میں ہندوؤں‘ عیسائیوں اور یہاں تک مسلم سماج کے شیعہ طبقہ اوراسلام سے خارج احمدیہ کو درکنار کردیا گیا۔

تقسیم کی سیاست نے جس طرح کے نفرت کا ماحول پیدا کیاتھا اس کا اثر پاکستان کی صنعتی او رتعلیمی ترقی میں دیکھائی دیا‘ اور یہی وجہہ تھی کہ سامراجی ‘ اور ملا ملٹری شعبہ کو طاقتور بنادیا۔وہیں مسلم لیگ پاکستان کے اپنے مقصد کو پورا کرنے میں کامیاب رہی اور بڑے مسلم فرقہ پرست عناصر پاکستان کو چلے گئے‘ ہندو فرقہ پرست عناصر ساورکر کا مجموعہ طور پر سکیولر ہندوستان میں ایقان نہیں تھا۔

انہوں نے دستور ہند ‘ ترنگا‘ اور سکیولرزم کے اصولوں کی مخالفت کی ‘ جو آج بھی ہندوستان کی ترقی میں بنیاد ہیں۔ جب سے فرقہ پرستی اثرانداز ہوئی ہے ‘ بی جے پی آرایس ایس کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے ‘ تیزی کے ساتھ طبقہ واری اساس پر پولرائزیشن ‘ اور مذہبی اقلیتوں کو درکنار کرنے میں اضافہ ہوا ہے۔

اس طرح کی سیاست پچھلے چارسالوں میں عروج پرپہنچ گئی ہے۔یہ پچھلے چارسالوں کے وقت میں عدم روادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہہ سے بہت سارے ممتازشہریوں نے اپنے ایوارڈس واپس کردئے ‘ ریٹائرڈ سیول سرونٹس نے کھل کر اس پر اپنے تشویش کا اظہار کیا‘ گائے کے نام پر بے رحمی کے ساتھ انسانوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنا جس کی وجہہ سے اقلیتوں کے دلوں میں ڈر او رخوف کاماحول پیدا ہوگیا

۔مجموعی طور پر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کو مکمل اختیارات فراہم کردئے گئے ہیں۔

ہندوقوم پرستی کی سیاست کہ یہ سپاہی خود کو ضرورت سے زیادہ طاقتور محسوس کررہے ہیں۔ گاندھی‘ نہرو‘ پٹیل اور سینکڑوں مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو شرمندہ کرنے کے لئے ایک بڑی ٹرول فوج تیار کی گئی ہے۔

ہم اس بات کے شاہد ہیں کہ اخلاق کو بے رحمی سے قتل کرنے والوں کے گھر کو منسٹر مہیش شرما نے دورہ کیاتھا۔ ہم نے ایک او رمنسٹر جینت سنہا کو بھی دیکھا جنھوں لینچنگ کیس کے ایک او رملزم کو تہنیت پیش کی۔ فساد کے ملزمین سے جیل جاکر ایک او رمنسٹر گری راج نے ملاقات کی۔

وہیں آر ایس بی جے پی کے اعلی قائدین یہ کہتے ہیں کہ دستور ہند نے کبھی بھی ہندوستان کی قدیم تہذیب کی عکاسی نہیں کی ہے لہذا کو تبدیل کردیاجائے گا۔ ٹھیک اسی طرح اننت کمار ہیگڈے نے کہاکہ بی جے پی یہاں پر دستور ہندکو بدلنے کے لئے ہے۔

بابری مسجد کی شہادت کے پیش نظر دل کو چھولینے والی ایک نظم پاکستانی شاعرہ فہمیدہریاض نے لکھی ’ تم بلکل ہم جیسے نکلے‘‘۔اس طرح کے زیادہ تر پاکستان کے آزاد خیال لوگ اس طرح کے شاعر ہندوستان کو اس کے سکیولر اقدار کی وجہہ سے پسند کرتے ہیں۔کانگریس بھلے ہی تھرور کے اس تبصرے سے دور ی اختیار کرے او ربی جے پی حملے کرتی رہے مگر ان کے الفاظ کی چوٹ صحیح جگہ پرلگی ہے۔