شرارت کا انجام

آج بھی روزانہ کی طرح جب وہ اسکول جانے کی تیاری کررہا تھا تو اس کا شرارتی ذہن نہ جانے کیا کیا سوچتا رہا ۔ جب وہ بس اسٹاپ پر پہنچا تو اس نے راستے میں کھانے کیلئے کچھ کیلے خریدے ۔ وہ شرارتی تو تھا ہی اس کے ساتھ ہی اس کے اندر ایک یہ بھی عیب تھا کہ وہ دوسروں کو ستانے میں بڑی خوشی محسوس کرتا تھا ۔ وہ یہ بھی نہ سوچتا تھا کہ اس کی شرارت سے کسی کا نقصان بھی ہوسکتا ہے ۔ کسی کے چوٹ بھی لگ سکتی ہے بس اس کو تو اپنے شرارت سے بھرپور کانارمے انجام دینے میں ہی لطف آتا تھا ۔
ان خامیوں کے باوجود وہ بہت ہی ذہین اور باصلاحیت بھی تھا لیکن وہ اپنی صلاحتییں اور ذہنی طاقت زیادہ تر شرارت میں ہی صرف کرتا اور اس طرح وہ شرارت سے بھرپور جذبے کی تسکین کرتا ۔ بس آنے پر وہ اس میں سوار ہوگیا اور ایک سیٹ پر بیٹھ کر کیلے کھانے شروع کردیئے ابھی وہ کیلے چھیل ہی رہا تھا کہ اس کے شرارتی ذہن میں ایک خیال آیا اور اس کے چہرے پر ایک خطرناک مسکراہٹ آئی اس نے کیلے کا چھلکا وہیں بس کے دروازے کے قریب ہی ڈال دیا اور یہ سوچ کر کہ جب کوئی اس سے پھسل کر گرے گا تو بڑا ہی مزا آئے گا ۔ ایسا کرتے ہوئے اس کو یہ خیال تک نہ آیا کہ اس کی اس حرکت سے کسی کے زیادہ چوٹ بھی لگ سکتی ہے ۔ چلتی بس سے گرنے کی وجہ سے کسی کی جان بھی جاسکتی ہے لیکن اس کو تو صرف اپنے شرارت کو ہی تسکین سمجھتا تھا ۔ آج بس میں سواریاں کم تھیں اسی وجہ سے راستے میں اترنے والوں کی تعداد بھی کم ہی تھی اور بس میں سوار بھی کم ہی لوگ ہورہے تھے وہ درمیانی رفتار سے منزل کی جانب رواں دواں تھی تمام سواریاں اپنے اپنے خیالات میں گم تھیں کچھ لوگ اپنی باتوں میں گم تھے تو کچھ خاموش ہی بیٹھے ہوئے تھے ۔ اچانک بس کے اندر ٹکٹ چیک کرنے والے داخل ہوئے اور انہوں نے بس میں موجود سواریوں کے ٹکٹ چیک کرنے شروع کردیئے یہ دیکھ کر اسلم گھبرا گیا اور ان لوگوں سے بچنے کیلئے وہ اپنی سیٹ سے اُٹھ کر بس سے نکل بھاگنے کے بارے میں سوچنے لگا گھبراہٹ میں اس کو خو داپنے ڈالے ہوئے کیلے کے چھلکوں کا خیال بھی نہ رہا جیسے ہی اس کا پیر اس چھلکے پر پڑا تو وہ پھسل گیا اور اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا ۔ اور بس کی سیڑیوں سے لڑھکتا ہوا باہر جاگرا ۔ بس تقریباً رک ہی چکی تھی فوراً ہی وہاں موجود لوگ اس کی مدد کیلئے دوڑ پڑے ۔ انہوں نے اسلم کو زمین سے اُٹھایا اور اس کو غور سے دیکھنے لگے چونکہ اس کے گرتے وقت بس تقریباً رک ہی چکی تھی اس وجہ سے اس کے چوٹ تو زیادہ نہیں آئی تھی لیکن پھر بھی چوٹ تھوڑی بہت لگی ہی تھی ۔ کہیں کہیں سے خون بھی رسنے لگا تھا کچھ نوجوان اس کو اٹھاکر قریب کے دواخانہ پر لے گئے اور ڈریسنگ کرادی سب اس سے اظہار ہمدردی کررہے تھے لیکن اسلم تو ان سب باتوں سے بے نیاز اپنی ان حرکات کو سوچ سوچ کر خود ہی شرمندہ ہورہا تھا ۔ آج اس کو احساس ہورہا تھا کہ کسی سے بیہودہ شرارت کرنا نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے ۔اب اس کی آنکھیں کھل چکی تھیں ۔