شراب کی حرمت اور سزا

شراب ہر صاحب فہم کے نزدیک ’’ام الخبائث‘‘ رہی ہے، اس کی خباثتوں سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ جن معاشروں نے اسے عملاً حلال کرلیا ہو، ان کی بات ہی دوسری ہے، لیکن وہ مسلمان جو مے نوشی کرتے رہے ہیں، وہ کبھی اس احساس سے خالی نہیں رہے کہ شراب ایک انتہائی بری شے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑا میخوار بھی کبھی یہ اعلان نہیں کرپاتا کہ وہ شراب پیتا ہے۔
تاحد علم، مسلمانوں کی پوری تاریخ میں شرب خمر کے کھلم کھلا اعلان کی ’’سعادت‘‘ صرف ایک ہی ’’نیک بخت‘‘ کو حاصل ہو سکی ہے۔ یہ تاریخی کارنامہ بھی اپنی جگہ بے نظیر ہے۔ عہد جاہلیت کا عرب معاشرہ اس سلسلے میں خاصا رسوائے زمانہ رہا ہے۔ شراب کی حرمت عہد رسالت میں بتدریج ہوئی۔ چنانچہ شراب کے بارے میں پہلا حکم یہ آیا: ’’وہ پوچھتے ہیں کہ شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہئے! ان دونوں میں بڑا گناہ ہے، اگرچہ ان میں لوگوں کے لئے کچھ منافع بھی ہیں مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے‘‘ (سورۃ البقرہ۔۲۱۹) اس حکم میں صرف اظہار ناپسندیدگی کرکے چھوڑدیا گیا، تاکہ ذہن ان کی حرمت قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ چنانچہ بہت سے سمجھدار لوگوں نے شریعت کے رجحان کو محسوس کرکے شراب نوشی ترک کردی۔ پھر اس کے بارے میں دوسرا حکم یہ آیا ’’اے ایمان والو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ‘‘ (سورۃ النسائ۔۴۳) یہ حکم مزید توجہ کا سبب بنا، جو لوگ شراب نوشی کے عادی تھے، ان کو اس حکم کے بعد اپنی مے نوشی کے اوقات میں تبدیلی کرنی پڑی۔ اب وہ اس احتیاط کے ساتھ پینے لگے کہ نشے کے دوران نماز کا وقت نہ آنے پائے۔ پھر تیسرا حکم یہ ہوا: ’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے گندے شیطانی کام ہیں، ان سے بچتے رہو تاکہ فلاح پاؤ‘‘ (سورۃ المائدہ۔۹۰) اس تیسرے حکم سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے متنبہ فرمادیا کہ اللہ تعالی کو شراب سخت ناپسند ہے، بعید نہیں کہ اس کی حرمت کا قطعی حکم آجائے، لہذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کردیں اور اس تیسرے حکم کے بعد اعلان کرایا کہ شراب ضائع کردی جائے، چنانچہ گلیوں میں شراب بہا دی گئی۔
اس موقع پر بعض لوگوں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! یہودیوں کو کیوں نہ تحفہ میں دے دیں؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’جس نے یہ چیز حرام کی ہے، اس نے اسے تحفۃً دینے سے بھی منع کیا ہے‘‘۔ بعض نے پوچھا ’’کیا شراب کو سرکہ میں تبدیل کرسکتے ہیں؟‘‘۔ فرمایا ’’نہیں، بہادو‘‘۔ کسی نے پوچھا ’’بطور دوا استعمال کی اجازت ہے؟‘‘۔ فرمایا ’’نہیں، وہ دوا نہیں بیماری ہے‘‘۔ کسی نے کہا ’’ہم سرد علاقے میں رہتے ہیں اور محنت بھی کرنی پڑتی ہے، ہم لوگ شراب سے تھکان اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں‘‘۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا ’’جو چیز تم پیتے ہو، کیا وہ نشہ کرتی ہے؟‘‘۔ کہاں ’’ہاں‘‘۔ فرمایا ’’اس سے بچو‘‘۔ عرض کیا ’’مگر ہمارے علاقے کے لوگ باز نہ آئیں گے‘‘۔ فرمایا ’’تو ان سے جنگ کرو‘‘۔
ایک موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ نے لعنت بھیجی ہے شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے بیچنے والے پر، اس کے خریدنے والے پر، اس کو کشید کرنے والے پر، اس کو ڈھوکر لے جانے والے پر اور اس شخص پر جس کے لئے یہ لے جائی گئی‘‘ (ابوداؤد) اس تفصیل کے بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ خدا و رسول کو شراب اس قدر ناپسند ہے، لہذا اس میں جو شخص ملوث ہو اسے سوچ لینا چاہئے کہ وہ خدا و رسول کی کس درجہ ناراضگی مول لے رہا ہے۔
عہد رسالت میں اس کی کوئی سزا مقرر نہ تھی۔ جوتے، لات، مُکے، بل دی ہوئی چادروں کے سونٹے اور کھجور کے سونٹے مارے جاتے تھے۔ عہد رسالت میں جرم مے نوشی پر جو زیادہ سے زیادہ سزا دی گئی، وہ چالیس ضربوں کی تھی اور اسی تعداد کی بنیاد پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں چالیس تازیانوں کی سزا دی گئی۔ ابتدائً حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں بھی یہی سزا رہی، لیکن جب دیکھا گیا کہ لوگ مکمل طورپر اس سے باز نہیں آرہے ہیں، مجلس شوریٰ کے مشورہ سے حد قذف پر قیاس کرکے اَسی تازیانوں کی سزا مقرر کی گئی، اس طرح شریعت کے تیسرے ماخذ ’’اجماع‘‘ سے یہ ’’حد‘‘ ہو گئی اور بعد میں اسی پر عمل ہوتا رہا۔ رہنما اصولوں کے مطالعہ کے بعد واضح طورپر محسوس ہوتا ہے کہ اسلام نے ظلم کی انتہائی شکلوں کے لئے چند سزائیں مقرر کرکے قانون تعزیرات کے لئے مسلم معاشرے کی پوری پوری رہنمائی کردی ہے۔ چنانچہ امت مسلمہ نے اس رہنمائی میں قوانین تعزیرات بنائے اور آئندہ بھی حسب ضرورت اسی رہنمائی میں قوانین وضع ہوتے رہیں گے۔
یہاں چند ایسے امور کے متعلق بھی کچھ عرض کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے، جن سے اسلام کے نظام تعزیرات کو اچھی طرح سمجھنے میں مدد مل سکے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں سزا کا تصور خیرخواہانہ ہے، بدخوانہ نہیں۔ اسلام کسی کو بغض و عداوت کے جذبات سے سزا نہیں دیتا، وہ ایک طرف مجرم کی تطہیر کا جذبہ اپنے اندر رکھتا ہے اور اسی جذبہ کے تحت وہ کفارے کو بھی اپنی سزاؤں کا مقصد بتاتا ہے۔ دوسری طرف معاشرے کی تطہیر اس کے پیش نظر ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ اسلام مجرم کی تطہیر کے لئے مجرم کی ’’توبہ‘‘ کو ضروری قرار دیتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ سزا انتظام تمدن کے لئے دی جا رہی ہے۔ مجرم کی اصل تطہیر توبہ سے ہوتی ہے۔ جو مجرم از خود عدالت میں پیش ہو گیا ہو تو اس کا یہ عمل ہی توبہ ہے، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مزید توبہ نہیں کراتے تھے، لیکن جو مجرم گرفتار کرکے لایا جاتا، اس سے آپﷺ سزا کے بعد توبہ کراتے تھے۔
تیسری بات یہ کہ سزا کے بعد اسلام، مجرم کو پھر مجرم نہیں سمجھتا، یہاں اس کی معاشرتی حیثیت بحال ہو جاتی ہے۔ اسلام معاشرہ کے کسی فرد کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ مجرم کو سزا کے بعد بھی ذلیل سمجھے اور اس پر زبان طعن دراز کرے۔ (اقتباس) (باقی تسلسل آئندہ)