شاہ محمود قریشی : ’پاک امریکہ تعطل ختم، کوئی ڈو مور کا مطالبہ نہیں ہوا‘

اسلام آباد ۔ 6 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ایک روزہ دورے پر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کرنے کے بعد انڈیا روانہ ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران پاکستانی وزیرِ خارجہ اور پاکستانی فوج کہ سربراہ قمر جاوید باجوہ بھی شریک تھے۔اس سے پہلے امریکی فوج کے جوائن چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ کے ہمراہ پاکستان آمد کے بعد مائیک پومپیو نے ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔بیان کے مطابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے زور دیا کہ افغانستان میں بات چیت کے ذریعے امن لانے میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔دسوری جانب امریکی وزیرخارجہ کے انڈیا چلے جانے کے بعد شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کو ملاقات سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ’ٹف ٹالکنگ‘ ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ڈو مور کا کوئی مطالبہ نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ سے ملاقاتوں کے دوران پاکستان کا رویہ مثبت تھا۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا ’پاکستان کا رویہ مثبت تھا۔ میں نے پاکستان کا موقف پیش کیا، حقیقت پسندانہ موقف پیش کیا۔ میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جس سے قوم کی توقعات بلند ہوں۔‘شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا ’میں نے پاکستان کا نقطہ نظر برد باری، خوداری اور ذمہ داری سے پیش کیا۔‘امریکی اہلکاروں سے ملاقات میں کشیدگی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپ کو باڈی لینگویج سے اندازہ ہوا ہوگا کہ یہ ملاقات خوشگوار تھی۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں امریکہ آنے کی دعوت دی گئی ہے اور وہ جب اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے لیے جائیں گے تو اسی دوران ان سے بھی ملاقات کریں گے۔افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ بات عمران خان برسوں سے کہہ رہے کہ اس تنازعے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ ہمیں مذاکرات سے یہ تنازعہ حل کرنا ہو گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی وزیرِ خارجہ مائک پومپیو نے بھی کہا کہ اس حوالے سے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کام کرے گا اور دیگر ادارے بھی ان کے ساتھ شامل ہوں گے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’اس سے یہ عندیہ ملا کہ طالبان کے ساتھ براہ راست بات کے لیے گنجائش پیدا ہوئی ہے۔‘’ایک اور معنی خیز بات ہے کہ امریکہ افغانستان میں غیر معینہ مدت کے لیے نہیں رہنا چاہتا۔ ‘پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا قیامِ امن کے لیے تعلقات میں سچائی ناگزیر ہے۔’میں نے انھیں واشگاف الفاظ میں کہا کہ اگر اس تعلق میں آگے بڑھنا ہے تو اس کی بنیاد سچائی پر ہونی چاہیے۔ جو آپ سمجھتے ہیں وہ کہیں میں سنوں گا اور جو میں سمجھتا ہوں وہ کہوں گا اور آپ کو سننا ہوگا۔ جب ہم ایک دوسرے کے خدشات نہیں سنیں گے تو پیش رفت نہیں ہو پائے گی۔‘’ہم نے ان کی خواہشات کو بھی سمجھا اور اپنی توقعات اور خدشات ان کے سامنے رکھے۔ اچھے انداز میں۔ ‘وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد امن استحکام، علاقائی وابستگی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کو اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے معاون بننا ہوگا۔ ‘