شاہ عبداللہ ۔ محمود عباس ملاقات

بیت المقدس مسجد اقصیٰ میں حالیہ اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں کے دو ہفتوں بعد صدر اردن شاہ عبداللہ کا دورہ فلسطین اور صدر محمود عباس سے ملاقات کے دوران مسجد اقصیٰ بحران کو زیر غور تو لایا گیا مگر اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے کی حکمت عملی واضح نہیں کی جاسکی ۔ شاہ عبداللہ کا یہ دورہ مغربی کنارہ پانچ سال میں پہلی مرتبہ ہوا ہے ۔ فلسطینیوں کے حق میں اردن کی آواز کو ایک اہمیت حاصل ہے ۔ محمود عباس اور شاہ عبداللہ نے اپنی بات چیت میں مسجد اقصیٰ کے احاطہ میں اسرائیلی فورس کی کارروائیوں کے آئندہ مستقبل میں احیا نہ ہونے کی کوشش کی جانب توجہ دی ہے ۔ مستقبل میں رونما ہونے والے اس طرح کے بحران سے سختی سے نمٹنے کا عزم ظاہر کیا گیا ۔ اسرائیل اس مسئلہ کو نازک بناکر فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچانے کی مذموم حرکتوں سے باز نہیں آرہا ہے ۔ حالیہ بحران کی اصل وجہ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے سے روکنا اور مسجد کے اندر داخل ہونے والوں کو میٹل ڈکٹیٹر سے گذرانے کی کوشش تھی ۔ اب آئندہ ایسی کوششوں کی صورت میں سخت قدم اٹھانے کی خاطر اردن اور فلسطین نے مشترکہ بحران سے نمٹنے والی کمیٹی بنانے سے اتفاق کیا ہے ۔ فلسطینی عوام کے ساتھ اردن کی حمایت دیرینہ ہے ۔ فلسطینی کاز کے لیے اردن کی دلچسپی قابل ستائش رہی ہے ۔ یروشلم میں اسرائیلی کارروائیوں کے ذریعہ فلسطینیوں کے حقوق کی دانستہ خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔ جب کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قرار دادوں کے مطابق اسرائیل کی کارروائی قابل سزا جرم مانا جاتا ہے ۔ وہ مسلسل بحران کے حالات پیدا کرنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کی کوشش کررہا ہے ۔ بیت المقدس کو یہودیوں کا مقدس مقام بنانے کی کوشش کے ذریعہ اس علاقہ کو منقسم کرنا چاہتا ہے ۔ حالیہ کارروائیوں کے خلاف اقوام متحدہ اور امریکہ نے مثبت رول ادا نہیں کیا اور نہ ہی اسرائیل کو انتباہ دیا گیا بلکہ امریکہ نے فلسطین پر دباؤ ڈالنے کے حربے کے طور پر فلسطینیوں کو دی جانے والی مالی امداد کم کرنے کی دھمکی دے کر اپنے عالمی اختیارات کا بیجا استعمال کیا ہے ۔ حال ہی میں عمان میں منعقدہ چوٹی کانفرنس میں اس بات کا عہد کیا گیا تھا کہ فلسطینیوں کی تائید جاری رکھی جائے گی اور فلسطینیوں کو دی جانے والی مالی امداد کو دوگنا کیا جائے گا ۔ اس حقیقت کے باوجود اسرائیل کی کارروائیوں کی مذمت نہ کرنا افسوسناک ہے ۔ اسرائیل اور فلسطین مذاکرات کے احیاء کے لیے کوششوں میں مصروف ممالک کو چاہئے کہ وہ اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں پر کنٹرول حاصل کریں اور مستقبل میں اس مقدس مقام کی بے حرمتی سے باز رکھا جائے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ سفارتی دباؤ اور فلسطینیوں کے شدید احتجاج کے سامنے اسرائیل نے بیت المقدس کے محاصرہ کو ختم کردیا مگر آئندہ اس طرح کی کوششوں کا اعادہ نہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی طاقتیں اسرائیل کو پابند کردیں ۔ اسرائیل نے گذشتہ ماہ مسجد اقصیٰ کو بند کرنے کے دوران جن اہم دستاویزات کا سرقہ کرلیا ہے ، اس کی بازیابی کی بھی کوشش ہونی چاہئے ۔ یروشلم کی جائیدادوں اور اہم دستاویزات کے سرقہ کے ذریعہ اسرائیل اس علاقہ پر اپنے حق ملکیت کے دعویٰ کے لیے توڑ مروڑ کر دستاویزات پیش کرنے کی کوشش کرسکتا ہے ۔ یروشلم کو یہودیوں کا مقدس مقام ثابت کرنے کی خاطر وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے ۔ ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے وہ دستاویزات کو جعلسازی کے ذریعہ خراب کرتے ہوئے شہر کی تاریخی حقیقت کو مسخ کرسکتا ہے ۔ بیت المقدس عالم اسلام کا قبلہ اول ہے اور اس مقام پر اپنے ادعا کی خاطر ہی اسرائیل جارحانہ کارروائیوں کے ذریعہ فلسطینیوں پر مظالم کرتا آرہا ہے ۔ مگر فلسطینیوں کے جذبہ نے اس کے ناپاک عزائم کو پورا کرنے نہیں دیا ۔ اب عالمی طاقتوں خاص کر اقوام متحدہ اور امریکہ کو چاہئے کہ وہ بیت المقدس کے تقدس کو پامال کرنے والی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اسرائیل کے خلاف سخت اقدامات کریں ۔ اردن کے شاہ عبداللہ کے دورہ فلسطین اور بیت المقدس کے لیے اسرائیل کی بدنگاہی کے خلاف ایک بحران کمیٹی کے قیام کا فیصلہ ایک مثبت تبدیلی ہے ۔ توقع کی جاتی ہے کہ اردن۔فلسطین مشترکہ کوششوں سے بیت المقدس کے تقدس کو پامال ہونے سے بچانے میں کامیابی ملے گی ۔۔