شاہِ روم کے صدق رسالت پر چند سوالات

مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر

از ابتدائے آفرینش تا قیام قیامت روئے زمین پر اللہ تعالی کے نزدیک صرف اور صرف ایک ہی مذہب و دین ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف انبیاء کرام اسی اسلام کے داعی بن کر تشریف لائے اور اپنی قوم کو دین اسلام کی دعوت دی۔ بعد میں وہ قومیں اپنے انبیاء کی تعلیمات سے بھٹک گئیں اور اپنے دین و مذہب میں نئی نئی بدعتیں اور خرافات گڑھ لئے، جس کے نتیجے میں اصل دین اور اس کی حقیقی روح مفقود ہو گئی۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے دین اسلام کی تکمیل کے لئے ایک ایسی ہستی کو وجود بخشا، جو ساری کائنات میں بے مثل و بے مثال تھی۔ وہ سارے انبیاء کرام و پیغمبران عظام کی صف میں نہایت ممتاز و مکرم رہی، وہ زبان و مکان کی حدود سے بالاتر، جن و انس کی قیودات سے ماوراء ساری کائنات کے لئے بشیر و نذیر بن کر تشریف لائے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’وہ بڑی برکت والا ہے، جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ ساری جہانوں کے لئے ڈر سنانے والے ہو جائیں‘‘۔ (سورۃ الفرقان۔۱)

اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے اور اللہ ہی بطور گواہ کافی ہے۔ (سورۃ الفتح۔۲۸)

چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد بطور خاص دنیا کے مختلف گوشوں میں مختلف سربراہان ممالک کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے خطوط روانہ فرمائے اور وہ خطوط اپنی حکمت، معنی خیزی اور اسلوب و بیان میں منفرد و ممتاز ہیں، ان ہی سربرآوردہ شخصیتوں میں ایک اہم شخصیت شاہ روم ہرقل کی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل نامہ مبارک اس کو روانہ فرمایا:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے، ہرقل حاکم روم کے نام۔ سلام اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی، میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لے آ، سلامت رہے گا، تجھے اللہ دوہرا اجر دے گا اور اگر تو روگردانی کرے گا تو تیری تمام رعیت کا گناہ تجھ پر ہوگا۔ آپ فرما دیجئے! اے اہل کتاب! جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اس کی طرف آؤ، وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے سواء کسی اور کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی شے کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سواء کارساز نہ بنائے۔ اگر وہ مانیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم گواہ رہو ہم مسلمان (فرماں بردار) ہیں‘‘۔

یہ نامہ مبارک حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعہ حاکم بصری کے توسط سے جب شاہ روم ہرقل کو پہنچا جو کہ مذہباً عیسائی تھا اور اپنے دین سے وابستہ تھا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا منتظر بھی تھا، تو شاہ روم نے کہا کہ ’’اس ملک میں کوئی عربی ہو تو لے آؤ، تاکہ حقیقت حال سے واقفیت ہو‘‘۔ اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ صلح حدیبیہ کے بعد حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ، جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، اپنے ساتھیوں کے ساتھ تجارت کے لئے فلسطین ہی میں تھے، سپاہیوں نے ان کو بادشاہ روم کے دربار میں پیش کیا۔ ہر قل نے سوال کیا ’’تم میں کون آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ازروئے نسب قریب ہے؟‘‘۔ ابوسفیان نے کہا ’’میں ہوں‘‘۔ ہرقل نے کہا ’’انھیں قریب کیا جائے اور ان کے ساتھیوں کو ان کے پیچھے کھڑا کیا جائے‘‘ اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ’’ان کے ساتھیوں سے کہو کہ میں چند سوالات کرنے والا ہوں، اگر ابوسفیان جھوٹ کہیں تو تم لوگ ان کی تکذیب کردینا‘‘۔ واضح رہے کہ عرب زمانہ جاہلیت میں بھی جھوٹ کو عار سمجھتے تھے۔ حضرت ابوسفیان کہتے ہیں کہ ’’اگر مجھے حیا نہ ہوتی کہ میرے ساتھی مجھ کو جھٹلائیں تو میں ضرور آپﷺ سے متعلق جھوٹ کہتا۔ مجھے حیا آئی اور میں نے جھوٹ نہیں کہا‘‘۔ اس وقت تک ابوسفیان، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق غلط فہمی کا شکار تھے۔
ہرقل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی خبر کو پرکھنے کے لئے امراء اور وزراء سے بھرے دربار میں سردار قریش سے چند سوالات کئے اور ان کے درمیان جاری مکالمہ تاریخ اسلام میں اہمیت کا حامل ہو گیا اور تاقیامت تاریخ کے سینے پر ثبت ہو گیا۔

ہرقل کا پہلا سوال: تم میں ان کا نسب کیسا ہے؟
ابوسفیان کا جواب: وہ ہم میں حسب و نسب والے ہیں۔
دوسرا سوال: کیا آپ سے پہلے کسی نے اس قسم کی بات کہی ہے؟
جواب: عرب کی تاریخ میں کسی نے بھی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔
تیسرا سوال: کیا ان کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ گزرے ہیں؟
جواب: نہیں۔
چوتھا سوال: کیا معزز و مکرم لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں یا کمزور و ضعیف؟
جواب: نہیں! کمزور و ضعیف ان کی پیروی کرتے ہیں۔

پانچواں سوال: ان کی تعداد بڑھتی یا گھٹتی ہے؟
جواب: نہیں، بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
چھٹواں سوال: کیا ان میں سے کوئی مسلمان ہونے کے بعد اس دین سے ناراض ہوکر مرتد ہوتا ہے؟
جواب: نہیں۔
ساتواں سوال: کیا تم ان پر اعلان نبوت سے قبل جھوٹ کا الزام لگاتے ہو؟
جواب: نہیں۔
آٹھواں سوال: کیا وہ دھوکہ دیتے ہیں؟
جواب: نہیں۔
پھر ابوسفیان نے کہا: ’’ہم ان کے ساتھ صلح کی مدت میں ہیں، نہیں معلوم اس مدت میں وہ کیا کریں گے‘‘۔ (ابوسفیان خود بیان کرتے ہیں کہ وہ اس جملہ کے علاوہ کوئی بھی منفی پہلو اپنے جوابات میں داخل نہیں کرسکے، لیکن ہرقل نے کوئی توجہ نہیں دی)

نواں سوال: کیا تم نے ان سے جنگ کی ہے؟
جواب: ہاں۔
دسواں سوال: تمہاری ان کے ساتھ جنگ کیسی رہی؟
جواب: جنگ ہمارے اور ان کے درمیان ڈول کے مانند رہی (کبھی ان کے ہاتھ میں، کبھی ہمارے ہاتھ میں)
گیارہواں سوال: وہ تمھیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟
جواب: وہ کہتے ہیں کہ تم صرف تنہا اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، تمہارے آباء و اجداد جس کے قائل تھے وہ چھوڑدو۔ وہ ہم کو نماز، سچائی، پاکدامنی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔

ہرقل کے استفسارات ختم ہوئے، اس کے بعد اس نے اپنے ایک ایک سوال اور جواب کا تجزیہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ ’’میں نے آپ کے نسب سے متعلق سوال کیا تو تم نے کہا کہ وہ ہم میں صاحب نسب ہیں۔ اس طرح انبیاء کرام اپنی قوم کے نسب میں مبعوث ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ کسی نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے اس طرح کی بات کہی ہے؟ تو تمہارا جواب تھا نہیں۔ اگر کوئی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے ایسی بات کہتا تو میں کہتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کی اقتداء کر رہے ہیں۔ میرا سوال تھا کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ گزرے ہیں؟ تم نے کہا نہیں۔ اگر ہوتے تو میں کہتا کہ آپ اپنے آباء کی سلطنت کے خواہاں ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ کیا تم اعلان نبوت سے قبل آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے؟ تمہارا جواب تھا نہیں، تو مجھے یقین ہو گیا کہ جو ذات لوگوں پر جھوٹ نہیں کہتی ہے، وہ کیونکر اللہ پر جھوٹ باندھ سکتی ہے۔
(باقی سلسلہ صفحہ۴پر)