شام کے عوام کو نجات دلائی جائے

وہ سورج ہاں یقینا کام کا ہے
غریبوں کا اگر چولھا جلا دے
شام کے عوام کو نجات دلائی جائے
شام میں ’ زہریلی گیاس ‘ کا استعمال کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر نہتے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے کی کارروائیوں پر آج ساری دنیا میں افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ شام کی حکمراں طاقت اپنے حلیف ملک روس کے سہارے اپنے ہی عوام کے لیے تکلیف دہ حالات پیدا کررہی ہے ۔ یہ ایک انسانی المیہ ہے ۔ دوما میں زہریلی گیاس حملے کی اطلاعات اس لیے المناک ہیں کہ روس اور شام نے اپنے فضائی حملوں میں شدت پیدا کرتے ہوئے اپوزیشن کے آخری مستحکم علاقہ مشرقی غوطہ میں اب تک ہزاروں شہریوں کو ہلاک کیا ۔ زہریلی گیاس کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد علحدہ ہے ۔ ان حملوں میں زخمی ہونے والوں کی طبی کیفیت سے اندازہ کیا جارہا ہے کہ یہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے زخمی ہوئے ہیں ، ان کا نظام تنفس بگڑ گیا ہے ۔ مشرقی غوطہ کے ٹاون دوما ایک بڑا واحد علاقہ ہے جہاں شدت سے مزاحمت ہورہی ہے ۔ اس علاقہ پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے شام کی فوج متواتر بھاری بمباری کرتے آرہی ہے ۔ دوما کی جو تصاویر مل رہی ہیں وہ دل ہلا دینے والی ہیں ۔ خواتین ، بچے اور بڑے ناگفتہ بحالت میں زندگی گذار رہے ہیں ۔ جو نعشیں مل رہی ہیں انہیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آرہا ہے ۔ زہریلی گیاس نے دم گھٹنے کے باعث نعشوں کے منہ کھلے ہوئے پائے گئے ہیں جو کیمیائی ہتھیاروں کے اثرات کا نتیجہ ہے ۔ ان حملوں کا سخت نوٹ لیتے ہوئے عالمی طاقتوں نے خاص کر امریکہ نے کہا کہ وہ بشار الاسد حکومت کی جانب سے خود ان کے عوام پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے تو اس کو ہرگز بردشت نہیں کیا جائیگا ۔ صدر ٹرمپ نے ان کیمیائی حملوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی ۔ صدر امریکہ نے شام اور اس کے اتحادی ملک روس کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ۔ برطانیہ نے بھی اس حملے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔ شام کی فوج بلاوجہ کیمیائی حملے کررہی ہے جس سے انسانی جانوں خاص کر معصوم بچے اور خواتین ہلاک ہوئے ہیں ۔ شام کو انتباہ دینے والے ملکوں نے اب تک کوئی ٹھوس قدم ہی نہیں اٹھایا ۔ صرف زبانی طور پر تنقیدوں کے دو لفظ بول کر یہ آئندہ کے حملے کا انتظار کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ اس سے قبل فروری میں امریکی سکریٹری ڈیفنس جیمس میٹس نے بھی شام کو انتباہ دیا تھا کہ اگر بشار الاسد حکومت نے اپنے شہریوں پر کیمیائی حملے کئے تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے لیکن اب تک امریکہ کیمیائی حملوں کے کئی واقعات کا مشاہدہ کرچکا ہے ۔ مگر بشار الاسد حکومت کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کی گئی ۔ بظاہر امریکہ سمیت عالمی طاقتیں روس کی موافق شام پالیسی پر چپ ہیں ۔ امریکی سفیر برائے اقوام متحدہ نیکی ہیلے نے بھی چند دن قبل ہی یہ کہا تھا کہ اسد حکومت نے شام کے عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال جاری رکھا ہے ۔ اس کا حلیف ملک روس نے کسی بھی قسم کی سنگین کیفیت پیدا ہونے سے روکنے کے لیے شام کی پشت پناہی کرتے ہوئے زبردست سہارا دیا ہے ۔ امریکہ کی صرف بیان بازی سے شام میں مخالف انسانیت طاقتوں کو کنٹرول میں نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بظاہر زبانی جمع خرچ کی حد تک مصروف نظر آرہے ہیں کیوں کہ روس اور امریکہ کے درمیان پہلے ہی حالات کشیدہ ہیں اور برطانیہ میں روس کے سابق جاسوس کی زہریلی گیاس سے ہوئی موت کے بعد تو سفارتی تعلقات میں مزید ابتری آئی ہے ۔ ایسے حالات میں کیا یہ ممکن ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے شام کی بشار الاسد حکومت کو سبق سکھانے کے لیے کوئی بڑا قدم اٹھایا جائے گا ۔ ایسا ممکن نظر نہیں آتا کیوں کہ 2017 میں امریکہ کا موقف الگ تھا ۔ اب روس نے نہ صرف امریکہ کو خبردار کردیا ہے بلکہ یہ واضح کردیا ہے کہ وہ بھی اس طرح کے حملہ کرتے ہوئے بشار الاسد حکومت کی دفاع کرے گا ۔ اس خطہ کے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے روس میں امریکہ کے خلاف جوابی کارروائی کرے گا ۔ روس کے اس بیان کے بعد امریکی ٹرمپ نظم و نسق نے خاموشی اختیار کرلی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر شام میں کیمیائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو ٹرمپ نظم و نسق اور دنیا کی دیگر بڑی طاقتیں کیا ٹھوس کارروائی کریں گی ۔ شام میں اس خون ریزی کو روکنے کے لیے ساری دنیا کے رہنماؤں کو مل بیٹھ کر قطعی فیصلے کرنے ہوں گے کیوں کہ اس خطہ میں دن بہ دن انسانی حقوق کے مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں اور پناہ گزینوں کی صورتحال نازک ہوگئی ہے ۔ گذشتہ سات سال سے یہ علاقہ بدامنی کا شکار ہو کر قبرستان بنتا جارہا ہے یہ انسانی قدروں کا خیال رکھنے والوں کے لیے صدمہ خیز کیفیت ہے ۔۔