سی بی آئی کے خلاف اقدام

سی بی آئی کے خلاف اقدام
حکومت کی نااہلی کی سزا عوام کو نہیں ملنی چاہئے اور نہ ہی سرکاری ذمہ دار اداروں پر حکومت کی خرابیوں کا اثر ہونے دیا جانا چاہئے۔ مگر حالیہ برسوں میں مرکزی حکومت کی کارکردگی نے ملک کے جمہوری، قانونی، دستوری اداروں کی شبیہ کو مسخ کردیا ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے اب ان ایجنسیوں کی افادیت کو گھٹانے والی مرکز کی بی جے پی حکومت پر اپوزیشن نے راست تنقیدیں کی ہیں۔ آندھراپردیش کے چیف منسٹر این چندرابابو نائیڈو نے تحقیقاتی ادارہ سی بی آئی کو دیئے گئے ریاستی حکومت کی ’’عام رضامندی‘‘ کو واپس لے لیا ہے کیوں کہ اس ادارہ پر اب بھروسہ نہیں رہا ہے۔ چندرابابو نائیڈو کے اس اقدام کی حمایت میں چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے بھی سی بی آئی کو دی گئی خصوصی رعایت سے دستبرداری اختیار کرلی ہے۔ ریاستوں نے سی بی آئی کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ کسی بھی تحقیقات کے سلسلہ میں ان کی ریاست میں بغیر ریاستی حکومت کی اجازت کے دھاوے کرتے ہوئے تلاشی مہم چلاسکتی ہے مگر حالیہ دنوں میں سی بی آئی کے اندر جاری داخلی رسہ کشی، سی بی آئی آفیسرس کی بدعنوانیوں کے واقعات نے اس ادارہ کی اہمیت گھٹادی ہے۔ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے بھی چندرابابو نائیڈو کی حکومت کے اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔ انھوں نے نائیڈو سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ انکم ٹیکس عہدیداروں کو بھی اپنی ریاست میں داخل ہونے نہ دیں۔ سی بی آئی ملک کی ایک اہم اور اعلیٰ اختیارات کی حامل تحقیقاتی ایجنسی ہے۔ مگر اس کے تعلق سے حالیہ ہونے والی تبدیلیوں نے ایجنسی کی افادیت کو کمزور کردیا ہے۔ چندرابابو نائیڈو نے یہ درست کہا ہے کہ سی بی آئی کا بیجا استعمال ہورہا ہے۔ مودی حکومت میں آخر سی بی آئی کی کارکردگی صرف سیاسی مخالفین کے ارد گرد ہی کیوں گھوم رہی ہے جبکہ اس ملک کو لوٹ کر فرار ہونے والوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ سی بی آئی نے اب تک نوٹ بندی کے ذریعہ اسکامس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ وجئے مالیا، رافیل، سہارا، برلا ڈائری وغیرہ تک سی بی آئی کے ہاتھ نہیں پہونچ سکے جبکہ اس ایجنسی کو سیاسی حریفوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ آندھراپردیش کی حکومت نے سی بی آئی کو دیئے گئے ’’عام رضامندی‘‘ کے موقف کو واپس لے کر یہ بتادیا ہے کہ مرکزی حکومت اپنے اختیارات کو من مانی طریقہ سے استعمال کرتے ہوئے سی بی آئی کو اپنا آلہ کار نہیں بناسکتی۔ سی بی آئی کو اس قدر کمزور کردیا گیا ہے کہ اب آندھراپردیش جیسی ریاست نے اس پر یقین کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اگر قومی اداروں کے خلاف ریاستوں میں اس طرح کا رجحان فروغ پائے تو یہ ایک خطرناک تبدیلی ہے اور اس کے لئے سراسر بی جے پی حکومت ذمہ دار ہے۔ سی بی آئی پر سے اعتماد اُٹھ جانے کا اظہار کرتے ہوئے چندرابابو نائیڈو نے جو فیصلہ کیا ہے اس کی ہر گوشے سے حمایت کی جارہی ہے۔ بظاہر اس جرأت مندانہ اقدام کے ذریعہ چندرابابو نائیڈو نے مودی حکومت کے خلاف تصادم کی راہ اختیار کی ہے لیکن یہ ایک بروقت کیا گیا درست فیصلہ ہے۔ اس سے قومی اور دستوری اداروں کی اہمیت کو برقرار رکھنے کی ترغیب ملے گی۔ آئندہ کوئی بھی طاقت دستوری، قانونی اور جمہوری اداروں کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے گریز کرسکے۔ مجموعی طور پر اس وقت مرکزی حکومت نے ملک کے اہم اداروں کی کارکردگی کو مفلوج بناکر رکھ دیا ہے۔ یہ روش سرکاری اداروں کی بُرائیوں کو مزید خراب کردے گی لہذا مرکزی حکومت کو فوری اپنی غلطیوں اور خرابیوں سے سبق سیکھ کر اپنی کارکردگی کو بہتر کرلینا چاہئے۔
مودی حکومت میں ملک کی معیشت ابتری کا شکار
آر بی آئی کے سابق گورنر رگھورام راجن نے امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں ہندوستانی معیشت کی جو تصویر پیش کی تھی وہ حقائق پر مبنی تھی۔ دو سال قبل مودی حکومت نے نوٹ بندی کا اعلان کرکے 1000 اور 500 روپئے کے نوٹ کا چلن بند کردیا تھا۔ یہ فیصلہ ہندوستان کی معاشی پیداوار پر کاری ضرب ثابت ہوا۔ رگھورام راجن نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو ہندوستانی معیشت کے لئے دو بڑے جڑواں دھماکوں سے تعبیر کیا ہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ عالمی معیشت ترقی کی منزلیں طے کرتی جارہی ہے ہندوستان کے اندر اختیارات کا بے جا فائدہ اُٹھانے والی سیاسی قیادت نے معیشت کی کمر ہی توڑ کر رکھ دی تھی۔ راجن نے ہندوستان کی آج کی صورتحال کا 2008 ء کے عالمی کساد بازاری سے تقابل کیا ہے اور ہندوستان کو اس معاشی انحطاط سے باہر نکالنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت بھی ظاہر کی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مرکز میں حکومت چلانے والی پارٹی نے اپنی ناقص کارکردگی اور خراب معاشی پالیسیوں کے ذریعہ عوام کو مالیاتی پریشانیوں سے دوچار کردیا۔ حکومت کے فرائض میں عوامی فلاح و بہبود کی پالیسی کو مؤثر بنانا ہوتا ہے لیکن موجودہ حکومت نے ناتجربہ کاری کا ثبوت دیتے ہوئے ہندوستان کو عالمی طاقتوں سے بہت پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود وزیر فینانس ارون جیٹلی اور مودی حکومت نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی پر اپنی پالیسی کو ہی درست قرار دیتے ہوئے غیر ضروری حجت پسندی سے کام لیا ہے۔ اب مرکزی حکومت کے اطراف یہ سوال اُٹھ رہے ہیں کہ کیا اس نے جی ایس ٹی کی اچھائیوں اور خرابیوں کے درمیان خود کو محصور کرلیا ہے؟ ملک کو اگر جی ایس ٹی کی ضرورت ہی تھی تو اس نئے ٹیکس سسٹم کو بہتر طریقہ سے تیار کیا جاسکتا تھا۔ اگر سابق گورنر آر بی آئی راجن کے معاشی تجزیہ اور مودی حکومت کی پالیسیوں کا باریکی سے جائزہ لیا جائے تو مودی حکومت کو دیانتداری سے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس سے معاشی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔