سی بی ائی کی خصوصی عدالت کے جج لویا کی مشتبہ حالت میں موت کے متعلق عدالت کے فیصلے 

مہارشٹرا۔ جسٹس بی ایچ لویا سہراب الدین فرضی انکاونٹر کیس کی سنوائی کررہے تھے۔ مذکورہ کیس کے اہم ملزمین میں بی جے پی کے صدر امیت شاہ کا نام شامل تھا جو سہراب الدین فرضی انکاونٹر کے وقت ریاست گجرات کے وزیر داخلہ تھے۔

جسٹس بی ایچ لویاکی جن حالات میں موت ہوئی وہ شبہ سے خالی نہیں ہیں۔ متوفی جج کی بہن اور انکل نے واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ ’’ انہیں قومی شبہ ہے کہ جسٹس لویا کی موت قدرتی طور پر نہیں ہوئی بلکہ ایک منظم سازش کے تحت ان کا قتل کیاگیا ہے‘‘۔

قتل کرنے کی وجوہات کیا ہوسکتی ہے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب ضروری ہے۔

سہراب الدین فرضی انکاونٹر کیس میں جج لویا نے سنوائی کے دوران امیت شاہ کو عدالت میں پیش ہونے کی سخت ہدایت دی تھی‘جس کے بعد اگلی سنوائی کے وقت کسی بھی حال میں امیت شاہ کو سی بی ائی کی خصوصی عدالت میں حاضر ہونا تھا۔

اسی دوران جج لویا ناگپور اپنے ایک ساتھی جج کی بیٹی کی شادی میں گئی۔ حالانکہ لویا کے گھر والوں کا کہنا ہے وہ شادی میں جانے کے لئے راضی نہیں تھے مگر دوساتھی ججوں کے اسرار پر وہ ناگپور چلے گئے۔

جسٹس بی ایچ لویا کو نہ تو بلڈ پریشر تھا اور نہ ہی کبھی ضیابطیس کی انہو ں نے شکایت کی تھی۔ ان کے خاندان میں بھی کسی کو دل کا دورہ پڑا اور نہ ہی کبھی اس قسم کی شکایت سامنے ائی۔ ان کے والد کی عمر 80سال سے زیادہ ہے مگر انہو ں نے کبھی قلب پر حملے یا کسی کارڈیک اٹک کا شکایت نہیں کی ۔

جسٹس بی ایچ لویا صبح کے اوقات میں چہل قدمی کے عادی تھے ‘ او راپنی صحت کے متعلق ہمیشہ وہ چوکنا رہتے تھے۔پھراچانک ناگپور کے گیسٹ ہاوز میں قلب پر حملے سے جسٹس بی ایچ لویا کی موت نے تشویش میں اضافہ کردیاتھا۔

اور اس کے بعد جسٹس لویا کے پوسٹ مارٹم میں عجلت‘ ممبئی میں ان کے گھر کے بجائے ‘ ان کے آبائی گاؤں میں مقیم والد کے گھر پر نعش پہنچانا اور نعش کی آمد سے قبل آر ایس ایس کے ایک کارکن کا بہن او رانکل کو فون آنا ‘ اس کے علاوہ ناگپور سے ان کے آبائی گاؤں کو نعش کی ایمبولنس میں تنہا منتقلی ‘ ساتھی ججوں کا اچانک غائب ہوجانا یہ وہ باتیں ہیں جسٹس لویا کی موت پر شکوک وشبہات میں اضافہ کا سبب بنے ہیں۔

عدالت نے مفاد عامہ کی تمام درخواستوں کو یہ کہتے مستر د کردیا کہ جج لویا کی موت قدرتی ہے اور مفاد عامہ کی تمام درخواستیں سیاسی سازش کا حصہ ہیں۔مذکورہ درخواستیں جج لویا کی مشکوک حالات میں موت کے متعلق آزادنہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے دائر کی گئی تھیں ۔ واضح رہے کہ عدلیہ پر بڑھتے سیاسی دباؤ کے سبب سپریم کورٹ کے معزز ججوں نے پریس کانفرنس کے ذریعہ اپنی پریشانی ظاہر کی تھی۔

جسٹس چلامیشوار‘ جسٹس جوز ف کورین‘جسٹس رنجن گوگوئی‘جسٹس مدن لوکر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاتھا کہ بہت سارے ایسے معاملات ہیں جس میں سیاسی دباؤ کے چلتے عدلیہ کی آزادی متاثرہورہی ہے۔

حالیہ دنوں میں جسٹس لویا کی موت پر دائر کردہ مفاد عامہ کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے سنائے گئے فیصلے پر نہ صر ف سیاسی حلقوں میں عدالت کی آزادی پر سوال کھڑے کئے جارہے ہیں بلکہ سماجی تحریکا ت سے وابستہ لوگ بھی اس فیصلے کوپر گہری تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔

معروف سماجی ریفارمر وسوشیل میڈیا نیوز اینکر دھرو راٹھی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں مذکورہ فیصلے پر جسٹس لویا کے انکل اور بہن کا عدالت کے فیصلے پر ردعمل پیش کیا ۔

انہوں نے ٹوئٹ کے ذریعہ جو تحریری کیاہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ’’اس معاملے میں اگر آزادنہ تحقیقات ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ایسا لگ رہا ہے سب منظم طریقے سے ہوا ہے‘‘ سرینواس لویا( جسٹس لویا کے چچا)۔ پھر لکھا کہ’’ اب کوئی امید باقی نہیں ہے‘ پچھلے چار سالوں میں‘ ہم کچھ بھی نہیں کہہ رہے ہیں ‘ ہمارے پاس کہنے کو کچھ باقی نہیں ہے‘‘ انورادھا بیانی( جسٹس لویا کی بہن)۔

عدالتی فیصلے کے مطابق جسٹس لویا کی موت قدرتی ہوئی ہے اور مفاد عامہ کی درخواستیں اگر سیاسی سازش کا حصہ ہیں تو کیا جسٹس لویا کے چچا اور بہن کا یہ تبصرہ بھی کسی سیاسی سازش کے تحت سامنے آیا ہے۔

کیا یہ لوگ بھی اپنے بھتیجے اور بھائی کی مشکوک حالت میں موت پر کسی سیاسی ساز ش کاحصہ بنیں ہیں۔ پچھلے چار او رپانچ ماہ میں جس طرح کے حالات پیش آرہے ہیں ا سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔