سی بی آئی عہدیداروں کی رشوت خوری

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
سی بی آئی عہدیداروں کی رشوت خوری
سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن ( سی بی آئی ) ڈپارٹمنٹ راست وزیراعظم کی نگرانی اور تحت میں کام کرتا ہے ۔ اس ادارہ کی ذمہ داری اہم ہے اسے سرکاری محکموں میں پائی جانے والی خرابیوں ، بدعنوانیوں اور اسکامس کا پتہ چلا کر تحقیقات کے ذریعہ خاطیوں کو سزا دلوانا ہوتا ہے مگر ان دنوں سی بی آئی کے اندر ہی رشوت خوری کے الزامات کی جنگ چل رہی ہے ۔ مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت حکومت میں سی بی آئی اب ایک داغدار ایجنسی بن کر سامنے آئی ہے ۔ سی بی آئی کے دو اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے رشوت کے سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں ۔ سی بی آئی سربراہ الوک ورما اور اسپیشل ڈائرکٹر راکیش استھانہ کے درمیان رشوت خوری کے الزامات نے وزیراعظم مودی کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔ مودی نے سی بی آئی عہدیداروں کو طلب کر کے ان سے کہا کہ رشوت کے الزامات کے معاملہ میں قانون کو اپنا کام کرنے دیجئے ۔ سوال یہ ہے کہ قانون ہی تو اپنا کام کررہا ہے تو اس طرح کے ادارے میں کام کرنے والے قانون شکنی کرتے جارہے ہیں ۔ وزیراعظم کی راست نگرانی میں کام کرنے والے ادارہ میں بدعنوانیاں ہوتی ہیں تو پھر ماباقی محکموں کی خرابیوں کا آسانی سے اندازہ کرلیا جاسکتا ہے ۔ سی بی آئی نے اپنے ہی اندر ہونے والی رشوت خوری کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے تحقیقات کا آغاز کیا ۔ تحقیقات کنندگان نے دو سپروائزری آفیسرس سے پوچھ گچھ کی ہے ۔ سی بی آئی اسپیشل ڈائرکٹر راکیش استھانہ کے خلاف شکایت حیدرآباد کے ایک تاجر نے کی تھی جس نے الزام عائد کیا تھا کہ دوبئی کے دو بھائیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سی بی آئی اسپیشل ڈائرکٹر کی ایماء پر کام کررہے ہیں اور انہوں نے ایک کیس میں حیدرآبادی تاجر کو بچانے کے لیے 5 کروڑ روپئے کی مانگ کی تھی ۔ غیر قانونی رقومات کی منتقلی کیس میں میٹ کے تاجر معین قریشی کے معاملہ میں یہ کیس جب منظر عام پر آیا تو سی بی آئی کے اندر ہونے والی کرپشن کی برائیوں کو بھی سامنے لایا گیا ہے ۔ یہ واقعی افسوس اور فکر کی بات ہے کہ ملک کے اصل تحقیقاتی ادارہ کے اندر ہی رشوت کا بازار گرم ہے ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سی بی آئی پر انگلیاں اٹھی ہیں اس سے قبل بھی سی بی آئی کے اعلیٰ عہدیدار رشوت خوری کے الزامات کا سامنا کرچکے ہیں ۔ سابق سی بی آئی سربراہ اے پی سنگھ نے اس یو پی کے میٹ ایکسپورٹر معین قریشی سے اپنی وابستگی کے الزامات کے باعث یونین پبلک سرویس کمیشن کے رکن کی حیثیت سے استعفیٰ دیدیا تھا ۔ معین قریشی کو ٹیکس چوری کی تحقیقات کا سامنا ہے ۔ ایک اور سابق چیف سی بی آئی رنجیت سنہا کو سپریم کورٹ نے ماخوذ کیا تھا ۔ ان پر الزام عائد تھا کہ انہوں نے 2G تحقیقات میں ملزم کی مدد کی تھی ۔ حالیہ وجئے مالیہ کیس میں بھی سی بی آئی پر مالیہ کی ملک سے فراری میں مدد کرنے کا الزام ہے۔ مالیہ کی لک آوٹ لونس کو ہٹانے کی ہدایت بھی سی بی آئی نے ہی دی تھی ۔ اس طرح کے بعض مخصوص کیسوں میں سارا سرکاری نظام ملوث ہوتا ہے تو پھر یہ ملک کے لیے بڑی بدبختی کی بات ہے ۔ سی بی آئی کے اندر پیدا ہونے والی خرابیوں کی تحقیقات تو ہوتی رہیں گی اور اس کیس کو طویل مدت تک جاری بھی رکھا جائے گا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے کیا سختی برتی جائے گی ۔ نیچے سے اوپر تک جب رشوت کا بازار گرم ہو تو دیانتداری ، ایمانداری ، شفافیت کا نام ہی ختم ہو کر رہ جائے گا ۔ ماضی میں بھی کئی اعلیٰ عہدیداروں کو رشوت کیس کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کو ختم کرنے کے لیے جب سرکاری اعلیٰ محکمے قائم کئے جاتے ہیں ان پر کروڑہا روپئے خرچ کئے جاتے ہیں اس کے باوجود سی بی آئی جیسے اعلیٰ ادارہ کے ذمہ داران میں رشوت خوری کا چلن پایا جائے تو یہ بڑے دکھ کی اور ملک کے لیے بدبختی کی بات ہے ۔ ایسے میں یہ ملک اپنے ہی بعض بدعنوان شہریوں کی دیمک سے کھوکھلا ہوتا جائے گا ۔ حکومت ہی جب اپنے اہم اداروں کے اندر جاری خرابیوں کو نظر انداز کرتی ہے تو یہ نظم و نسق کی بدترین مثال سمجھی جائے گا ۔ سی بی آئی کے معاملہ کو بھی حکومت نے محکمہ کے اندر کی لڑائی سمجھ کر خاموشی اختیار کرلی ہے تو یہ خرابی آگے چل کر ابتری کی انتہا کو پہونچے گی ۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ موجودہ تحقیقاتی میکانزم ہی بگڑا ہوا ہے ۔ سنٹرل ویجلنس کمیشن ( سی وی سی ) کو سی بی آئی پر نظر رکھنی ہوتی ہے اور سی وی سی کی منظوری کے بغیر حکومت کی جانب سے کوئی بھی عہدیدار کا تقرر عمل میں نہیں آتا ۔ سی بی آئی محکمہ کی رشوت خوری کے الزامات منظر عام پر آنے کے بعد بھی سی وی سی نے منہ نہیں کھولا ہے تو پھر یوں سمجھاجائے گا کہ ہندوستان کے اہم ادارے سیاسی بدعنوان افراد کے تسلط کا شکار ہیں ۔