سی بی آئی حالات ‘رافیل تو وجہ نہیں ؟

نہ ہو منکشف مرا حالِ دل
کہ پڑی رہے یہ نقاب سی
سی بی آئی حالات ‘رافیل تو وجہ نہیں ؟
ملک کے سب سے طاقتور سمجھے جانے والے تحقیقاتی ادارہ سی بی آئی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیںہے ۔ حالات بہت تیزی سے اور انتہائی ابتر ہوچکے ہیں۔ پہلے تو خود سی بی آئی نے اپنے ہی ایک اعلی عہدیدار کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ۔ ایک دوسرے عہدیدار کی گرفتاری عمل میںلائی گئی تھی اور اچانک ہی رات دیر گئے بلکہ صبح کی اولین ساعتوں میںسی بی آئی کے ڈائرکٹر کو بھی عملا بیدخل کردیا گیا ۔حکومت نے وضاحت کی ہے کہ حالانکہ وہ اپنے عہدہ پر برقرار رہیں گے لیکن انہیں اس عہدہ کے اختیارات حاصل نہیںرہیں گے اور وہ دفتر نہیں آسکتے ۔ اس طرح ان کی برقراری بھی محض ضابطہ ہے وہ عملا اس عہدہ پر برقرار نہیں رہے ہیں۔ حکومت نے اس سارے معاملہ میں جس طرح سے کارروائیاں کی ہیں اور جس انداز میں ایک عہدیدار کے بعد دوسرے کو نشانہ بناتے ہوئے کارروائی کی گئی ہے اس سے یہ شبہات تقویت پاتے ہیں کہ ملک کے اس اعلی ترین تحقیقاتی ادارہ میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے ۔ یا تو خود ادارہ میں حالات خراب ہیں یا پھر یہاں سے کچھ ایسی تحقیقات شروع ہوسکتی تھیں جن کے نتیجہ میں حالات حکومت کیلئے ابتر ہوسکتے تھے ۔ شائد یہی وجہ تھی کہ رات دیر گئے کے بعد اچانک ہی سی بی آئی ڈائرکٹر کو عملا ہٹادیا گیا اور ان کی جگہ دوسرے ڈائرکٹر کا تقرر بھی عمل میں لادیا گیا ہے ۔ ان شبہات کے درمیان کہ حکومت نے اس سارے معاملہ میں کسی راز کی پردہ پوشی کی کوشش کی ہے اپوزیشن کانگریس اور دہلی میں برسر اقتدار عام آدمی پارٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ سی بی آئی کے ڈائرکٹر کی جانب سے دوسرے دن رافیل معاملت میں تحقیقات کا آغاز کیا جانے والا تھا اور انہوں نے اس سلسلہ میں کچھ دستاویزات بھی جمع کرلئے تھے اسی لئے راتوں رات ان کے پر کاٹ دئے گئے ۔ حکومت نہیں چاہتی کہ رافیل معاملت میں کوئی تحقیقات ہوں کیونکہ اس سے حکومت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ رافیل معاملت ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت کیلئے گلے کی ہڈی بن گئی ہے ۔ اس میں جہاںحکومت کو مسائل درپیش ہیں وہیں اپوزیشن بھی مسلسل اس کو موضوع بحث بناتے ہوئے عوام کو اس سے واقف کروانے میں مصروف ہے ۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ سی بی آئی ڈائرکٹر نے اس معاملت شائد کچھ دستاویزات بھی جمع لرئے تھے اور وہ دوسرے ہی دن سے تحقیقات کا آغاز کرنے والے تھے ۔یہ حالانکہ اپوزیشن کا صرف الزام ہے لیکن موجودہ حالات میں ان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔جس طرح سے حالات وقوع پذیر ہوئے ہیں اور حکومت نے جس تیزی سے اور جس انداز سے ڈائرکٹر کے خلاف کارروائی کی ہے ان کی بنیادوں پر یہ شبہات واقعی تقویت پاتے ہیں کہ اس معاملہ میں کوئی راز ایسے ضرور ہیں جنہیں حکومت چھپانا چاہتی ہے ۔ سی بی آئی ڈائرکٹر کے تقرر یا پھر ان کی برخواستگی کا جو طریقہ کار ہندوستان میں مروج ہے وہ وزیراعظم ‘ چیف جسٹس آف انڈیا اور قائد اپوزیشن میں اتفاق رائے سے ہوتا ہے ۔ جہاں تک ڈائرکٹر آلوک ورما کی عملا علیحدگی کا معاملہ ہے اس پر حکومت نے بلکہ وزیر اعظم نے از خود ہی اور رات دیر گئے کے بعد فیصلہ کرلیا اور یہ احکام بھی جاری کردئے گئے ۔ اس معاملہ میں شائد نہ چیف جسٹس کی رائے لی گئی اور نہ ہی قائد اپوزیشن سے کوئی تبادلہ خیال کیا گیا ۔ یہ انداز اور طریقہ کار بھی اس تعلق سے عائد کئے جانے والے الزامات اور شبہات کو تقویت بخشنے کا باعث ہی ہے ۔ اس پر حکومت نے جس طرح کی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور کوئی وضاحت نہیں کی جا رہی ہے اس سے ملک بھر میں سوال پیدا ہونے لگے ہیں اور جواب دینے والا کوئی نہیںہے ۔
رافیل معاملت مودی حکومت کیلئے بوفورس سے زیادہ سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے ۔ معاملہ میں جس طرح سے خانگی شراکت دار کو حصہ بنایا گیا ‘ سرکاری کمپنی کو اس سے علیحدہ کردیا گیا اور خود وزیر اعظم نے فرانس جا کر معاملت کو جس انداز سے قطعیت دی ہے اس پر اپوزیشن کے الزامات بے بنیاد نہیںہیں۔ ملک کے عوام بھی اس تعلق سے حقائق کو جاننا چاہتے تھے ۔ حکومت اس پر اپوزیشن کے الزامات کا راست جواب دینے اور حقائق بتانے کی بجائے جوابی الزامات پر انحصار کر رہی تھی ۔ اب جبکہ سی بی آئی کی جانب سے اس معاملہ میں تحقیقات شروع کرنے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے حکومت نے یہاں بھی اتھل پتھل مچادی ۔ حکومت کے اقدامات نے ملک کے اس اعلی ترین تحقیقاتی ادارہ اور خود اپنی کارروائیوں پر بے چینی پیدا کردی ہے ۔