سی بی آئی بمقابلہ سی بی آئی

وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں
سی بی آئی بمقابلہ سی بی آئی
ہندوستان کے اہم ادارے جیسے سی بی آئی، الیکشن کمیشن آف انڈیا، انسانی حقوق کمیشن اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی اہمیت کو ملیامیٹ کرنے والی کارروائیوں نے اپوزیشن کانگریس کو احتجاج کیلئے مجبور کردیا ہے۔ پے در پے خرابیوں، بدعنوانیوں، اسکامس اور دھاندلیوں کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش میں حکمراں طبقہ جب اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کرنے لگتا ہے تو ملک کے عوام اس پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ اپوزیشن کا فرض ادا کرتے ہوئے کانگریس نے موجودہ مرکزی حکومت کی خرابیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے سی بی آئی کے ڈائرکٹر الوک ورما کو ہٹادینے اور دیگر سی بی آئی عہدیداروں کے خلاف کی گئی کارروائی کا سوال اٹھا کر وزیراعظم نریندر مودی سے کہا ہیکہ وہ ملک کا پیسہ چوری کرکے راہ فرار اختیار تو کرسکتے ہیں لیکن وہ سچائی نہیں چھپا سکتے ہیں۔ نئی دہلی میں خود کو گرفتاری کیلئے پیش کرتے ہوئے راہول گاندھی وزیراعظم مودی کے خلاف اپنے الزامات کا اعادہ کیا۔ رافیل لڑاکا جیٹ طیاروں کی خریداری میں ہوئے اسکام کی تحقیقات سے دلچسپی رکھنے والے سی بی آئی عہدیدار الوک ورما کو خاموشی کے ساتھ ان کے عہدہ سے اٹھایا گیا۔ راہول گاندھی نے ایک سلگتا مسئلہ اٹھایا ہے۔ وزیراعظم کو ان کے ہی ادعا کی جانب توجہ دلائی کہ مودی نے خود کو ملک کا چوکیدار قرار دیا تھا اور ایک چوکیدار ہوکر انہوں نے ملک کے وسائل اور خزانہ کی حفاظت کرنے کے بجائے اس کو لوٹ لینے والے خفیہ کام انجام دیئے ہیں اور تقریباً 30,000 کروڑ روپئے انیل امبانی کے پراجکٹ میں جمع کردیئے ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی فضائیہ سے رقم کا سرقہ کرلیا ہے اور سارا ملک اب سمجھنے لگا ہیکہ وزیراعظم راہ فرار ہوسکتے ہیں لیکن وہ سچائی کو چھپا نہیں سکیں گے۔ کچھ وقت کی خاموشی ہے پھر شور ہوگا اور اس وقت مرکز میں جو کچھ طاقت قابض ہیں اس کا وقت آ چکا ہے۔ اس کے بعد کانگریس کا دور ہوگا۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے جب سے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی ہے پارٹی کی ساکھ کو مضبوط کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ عوامی مسائل او رحکومت کی خرابیوں سے سارے ملک کو واقف کروانا ایک لیڈر کا فرض ہوتا ہے اور یہی فرض وہ ادا کررہے ہیں۔ اگر وزیراعظم کو یہ زعم ہے کہ نہ وہ گرے ہیں اور نہ ان کی امیدوں کے مینار گرے ہیں تو عوام کے فیصلے کے آگے کوئی نہیں ٹک سکا ہے۔ بھکرتی ریت پر اپنے نقش کو کوئی بھی زیادہ دیر تک آباد نہیں رکھے گا۔ مودی حکومت کی خرابیاں عوام کے سامنے آ چکی ہیں۔ وقت کا تقاضہ تو یہی ہیکہ سی بی آئی جیسے اہم ادارہ کی گرتی ساکھ کو بچایا جائے۔ اس ادارہ کی افادیت کو برقرار رکھا جائے۔ سی بی آئی کو کسی پنجرے میں قید طوطے بنائے رکھنے کے بجائے اسے رشوت کے خلاف وار کرنے والا سخت گیر ادارہ بنایا جائے۔ سیاستدانوں، بیوریوکریٹس اور دیگر افراد کی بدعنوانیوں، غیرقانونی سرگرمیوں کے خلاف اپنی تحقیقاتی گرفت کو مضبوط کرنے کی سی بی آئی کو مکمل آزادی دی جانی چاہئے۔ سی بی آئی میں پیدا ہونے والی خرابیوں اور عہدیداروں کے درمیان آپسی رسہ کشی کے خلاف خود بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے بھی شکایت کی تھی اور برسرعام سی بی آئی کے بعض عہدیداروں پر الزام عائد کیا تھا کہ کئی ایک حساس کیسوں کو ان عہدیدارنے روک رکھا ہے جس میں وجئے مالیا اور ایرسل میکس کیس بھی شامل ہیں۔ سی بی آئی کے ڈائرکٹر الوک ورما اور اسپیشل ڈائرکٹر راکیش آستھانہ کے درمیان جس قسم کی تصادم کی راہ پیدا ہوئی ہے یا پیدا کردی گئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈائرکٹر کو ہی ہٹا دیا گیا ان کی جگہ دوسرے آئی پی ایس عہدیدار کو ڈائرکٹر بنایا گیا۔ بہرحال اب یہ مسئلہ سپریم کورٹ پہنچادیا گیا ہے۔ ایسے میں مودی حکومت نے مدافعتی موقف اختیار کرنے کی کوشش بھی شروع کردی ہے لیکن اپوزیشن کی حیثیت سے کانگریس کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ عوام کے سامنے سی بی آئی کے حوالے ملک کی دیگر معاشی، رشوت ستانی اور دیگر اسکامس جیسے واقعات کو واضح طور پر پیش کریں۔ عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ موجودہ حکومت نے اپنی کارکردگی سے عوام کو صرف پریشانیاں ہی دی ہیں لہٰذا جو کچھ واقعات سامنے آئے ہیں سی بی آئی کے تنازعہ کی منصفانہ طریقہ سے تحقیقات ہونی چاہئے اور جن عہدیداروں کو ہٹادیا گیا ہے اس اقدام کے پس پردہ کیا محرکات ہیں اس کو آشکار کیا جانا چاہئے۔
ہندوستانی شیئر مارکٹ پر ابتری کے اثرات
ہندوستانی اسٹاک مارکٹ میں اس ہفتہ بدترین گراوٹ درج کئے جانے کے بعد کئی تجارتی شعبوں میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔ معاشی پیداوار کے امکانات میں کمزور پہلو عیاں ہونے سے کارپوریٹ آمدنی کے بارے میں فکر لاحق ہوگئی ہے۔ حکومت کی جانب سے ہمیشہ طاقتور معیشت کی پیش قیاسی کی جاتی ہے جبکہ موجودہ معاشی صورتحال کو غیرمستحکم اور غیریقینی قرار دیا جارہا ہے۔ ڈالر کے مقابل روپئے کی قدر میں جو گراوٹ آئی ہے اس میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ملک کا سالانہ بجٹ تیار کرنے والی حکومت متوسط اور غریب عوام کو سہولتیں دینے کے نام پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائی۔ خاص کر گذشتہ چار سال میں عوام کو مالیاتی طور پر شدید پریشان کرکے رکھا گیا۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور روپئے کی قدر میں گراوٹ کا اثر شیرز مارکٹ پر پڑا ہے۔ ملک کی 209 کمپنیوں نے اپنے دوسرے کوارٹر کے نتائج کا اعلان کیا ہے اور جو آمدنی دکھائی ہے وہ گذشتہ سال کے ہی مساوی بتائی ہے لیکن اس حکومت سے قبل ان کمپنیوں کی آمدنی کو بہتر بتایا گیا تھا۔ ہمارا قومی المیہ یہی ہیکہ حکمراں پارٹی کا ساتھ دینے والی کمپنیاں اور تاجر طبقہ میں خوش قسمتی کے گیت گاتا ہے۔ ماباقی طبقہ اپنی بدقسمتی کا ماتم کرتا ہے۔ معاشی استحکام کے لئے چھوٹے اور متوسط تجارت پیشہ خاندانوں کا رول اہم ہوتا ہے لیکن ان چار سال میں یہی طبقات بری طرح متاثر ہوگئے ہیں۔ نوٹ بندی نے ملک کی تجارتی فضاء کو خسارہ کے دلدل میں ڈھکیل دیا تھا اب تک اس دلدل سے باہر نکلنے کی کوئی راہ سامنے نہیں آئی ہے۔