سیاسی دانشوروں کی غلطیاں

ساری امیدیں ٹوٹ گئیں دل بیٹھ گیا جی چھوٹ گیا
تھک تھک کر اس راہ میں آخر اک اک ساتھی چھوٹ گیا
سیاسی دانشوروں کی غلطیاں
اسکول میں استاد کے پڑھائے گئے سبق کو یاد نہ کرنے والے طالب علم نالائق کہلاتے ہیں۔ اسی طرح زندگی کی غلطیوں اور تجربات سے سبق نہ سیکھنے والے بھی بار بار غلطیاں دہراتے، صدمات اور نقصانات اٹھاتے رہتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو خاص کر اپنے تجربات اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہیکہ عام آدمی پارٹی نے کوئی سبق نہیں سیکھا اس لئے آئے دن پارٹی کے اندر انتشار اور بدنامی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ چیف منسٹر اروند کجریوال نے پارٹی کی قومی عاملہ سے یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کو ہٹادیا۔ اس کے بعد میدھا پاٹکر نے بھی پارٹی چھوڑ دی۔ جن قائدین نے عام آدمی پارٹی کو مضبوط بنانے سماجی کارکنوں کی حیثیت سے کام کیا اور فنڈس اکھٹا کئے اب انہیں ماوسٹوں یا دیگر ٹھگوں کی طرح انا ہزارے کی تحریک کا اغوا کرلئے جانے والوں کی فہرست میں انہیں بھی شامل کیا جارہا ہے تو اس میں حرج کیا ہے کا سوال پیدا ہوسکتا ہے۔ جن دانشوروں کی جماعت نے انسداد رشوت ستانی مہم کا بیڑہ اٹھایا تھا اب یہ دانشوری رشوت ستانی کے سامنے پانی پانی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی سے میدھا پاٹکر کے نکل جانے کی اگرچیکہ کسی نے نوٹس نہیں لیا ہو ان کی موجودگی میں عام آدمی پارٹی کو تقویت دینے کا کام نہیں کررہی تھی پرشانت بھوشن کا جہاں تک سوال ہے انہیں پارٹی سے بتدریج دور کرنے چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کی کوشش ان کی نیت کا مظہر معلوم ہوتی ہیں جس عام آدمی پارٹی کو دہلی والوں نے دل و جان سے ووٹ دے کر دوبارہ اقتدار پر لایا ہے اب انہیں برقی، پانی اور رشوت سے پاک سرکاری نظم و نسق پوری طرح ملے گا یا نہیں یہ خیال معلق پایا جارہا ہے۔ جن نجومیوں نے عام آدمی پارٹی کے بارے میں پیش قیاسیاں کی تھیں، پارٹی کے داخلی حالات کو دیکھ کر سچ ثابت ہونے کا گمان ہورہا ہے۔ پارٹی کے دیانتدار قائدین کو کچھ لوگ عام آدمی پارٹی کے ساتھ انصاف کرنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر عام آدمی پارٹی کیلئے اپنی قیمتی اوقات کو قربان کرنے والوں کو شدید دھکہ پہنچے گا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا ہیکہ قومی سیاست میں عام آدمی پارٹی کو کانگریس اور بی جے پی کی متبادل سیاسی طاقت متصور کیا جانے لگا لیکن پارٹی کو اندر ہی اندر کمزور کرنے کی سازشوں کو کامیاب بنانے والوں نے ملک کے عام آدمی کو مایوس کردیا ہے۔ جن لاکھوں عوام نے عام آدمی پارٹی کی فلسفیانہ سوچ اور وعدوں کو یقین کرلیا تھا اب انہیں پارٹی کے حالات پر صدمہ ہورہا ہے۔ اس پارٹی کا دہلی پر دوبارہ اقتدار پر آنا ایک بذات خود ایک کرشمہ تھا مگر پارٹی کے ذمہ داروں کو بھی اس کامیابی کو نبھانے کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت عام آدمی پارٹی کی بدقسمتی کا یہ عالم ہیکہ دہلی کے عوام بھی اس پر اعتبار کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ اس لئے پارٹی کے باہم متصادم قائدین اور دانشوروں کو اپنے آپسی اختلافات ختم کرکے عوامی خدمت کے جذبہ کو فروغ دینا ہوگا۔ اس پارٹی کو داخلی جھگڑوں میں ملوث نہیں ہونا چاہئے۔ اروند کجریوال کو یکلخت موقف تبدیل کرنا اب کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ان کا اصرار تھا کہ وہ عوام کی خدمت کیلئے پارٹی کے تمام ارکان کو ساتھ لے کرکام کریں گے لیکن اب وہ اپنی حکومت کی عوامی خدمت کی راہ میں کانٹا بننے والے قائدین کو راہ سے ہٹاتے جارہے ہیں تو اس کا غلط مطلب اخذ کرکے کانگریس اور بی جے پی اتحاد گمراہ کن مہم میں کامیاب ہونے کی کوشش کریں گی۔ اروند کجریوال کے انداز سیاست کو کمزوری یا موقع پرستی سے تعبیر کرنے والوں کو زمینی حقائق کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ ڈسمبر 2013ء میں ایک نجومی سشیل چترویدی نے پیشن گوئی کی تھی کہ عام آدمی پارٹی جنوری 2017ء تک پوری طرح ختم ہوجائے گی اور اس سال 15 جون سے قبل پارٹی عملاً منقسم ہوجائے گی تو قومی سیاست میں کانگریس اور بی جے پی کا متبادل عام آدمی پارٹی میں تلاش کرنے والے رائے دہندوں کو شدید صدمہ ہوگا۔ عام آدمی پارٹی کے قیام کے روز سے ہی دانشوروں کی اس جماعت کو داخلی یا بغلی گھونسوں سے لگنے والے زخموں نے کمزور کردیا ہے۔ بوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن نے کہا ادارے میں اور اروند کجریوال کو غیر اہم کرنے کی مہم کی وجوہات کیا ہیں اس کا خود اروند کجریوال کو پتہ چلاتے ہوئے پارٹی کو مزید کمزور ہونے سے بچانا ہوگا۔