سیاسی اختلاف کا گرتا معیار

الفاظ ہیں صرف آج کتابوں کی یہ زینت
معیار و اقدار کے اب دن گزر گئے
سیاسی اختلاف کا گرتا معیار
کسی بھی ملک کی سیاست میں اختلاف رائے ہوتا ہے ۔ خاص طور پر جمہوری طرز حکمرانی میںاختلاف رائے کی کافی گنجائش ہوتی ہے اور یہ صحتمند جمہوریت کیلئے ضروری بھی ہوتا ہے ۔ تاہم سیاسی اختلاف رائے کو شخصی دشمنی کی شکل دینا انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ جو اختلافات نظریاتی اور موضوعاتی ہوتے ہیں وہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن اگر ان ہی اختلافات کو شخصی شکل دیدی جائے تو وہ انتہائی بھونڈے ہوجاتے ہیں۔ جب کبھی ملک میں انتخابات کا ماحول آتا ہے تو سیاستدانوں کی زبانوں میں زیادہ ہی کھجلی ہونے لگتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف ایسے ریمارکس کرنے شروع کردیتے ہیں جو عمومی اختلاف رائے کا حصہ نہیں ہونے چاہئیں۔ گذشتہ چند برسوں میں خاص بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ بی جے پی کے قائدین انتخابات کے موسم میں آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور مخالفین کے خلاف ایسے ریمارکس شروع کردیتے ہیں جن کی مہذب سماج میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ جب اترپردیش اسمبلی کے انتخابات ہو رہے تھے وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور انہوں نے شمشان اور قبرستان ‘ دیپاولی اور عید کا تقابل کرتے ہوئے فرقہ پرستانہ نوعیت کے ریمارکس کئے تھے ۔ ان ریمارکس پر کافی تنقیدیں ہوئی تھیں لیکن وزیر اعظم ایسی تنقیدوں کو بھی خاطر میں لانے والے نہیں ہیں۔ وہ اپنے خول میں بند ہوکر حکمرانی میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ مخالفین یا ذرائع ابلاغ تو دور کی بات ہے ملک کے عوام کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی اپنی ہی پارٹی کے رفقا کی رائے کو کوئی اہمیت دینے تیار ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ان کی پارٹی کے رفقا کو کسی رائے کے اظہار کی بھی اجازت نہیں ہوتی ۔ جس طرح مودی نے یو پی اسمبلی انتخابات میں ریمارکس کئے تھے اسی طرح اب جبکہ ملک میں عام انتخابات کا ماحول گرمانے لگا ہے بی جے پی قائدین کی زبانیں ایک بار پھر بے لگام ہونے لگی ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک سینئر بی جے پی لیڈر نے کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا کے تعلق سے انتہائی نازیبا ریمارکس کئے تھے جو ان کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرنے کیلئے کافی تھی ۔
اب اترپردیش کے ایک وزیر سریکانت شرما نے کانگریس صدر راہول گاندھی کے تعلق سے ایسے ریمارکس کئے ہیں جو انتہائی نازیبا اور شرمناک ہیں۔ سریکانت شرما نے اپنے ہندی ٹوئیٹ میں راہول گاندھی کو زنخہ قرار دیا ہے ۔ یہ ہندوستانی سیاست کا انتہائی شرمناک پہلو ہے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف اس طرح کے ریمارکس کئے جا رہے ہیں۔ سیاست میںاختلاف رائے کا حق بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور اگر اس کو خاطر میں نہ لایا جائے تو الگ بات ہے لیکن اختلاف رائے پر کسی کے تعلق سے انتہائی نازیبا ریمارکس کرنا یا غیر شائستہ الفاظ کا استعمال کرنا شرمناک عمل ہے ۔ حیرت اور تعجب اس بات کا ہے کہ بی جے پی کے قائدین ایسی زبان مسلسل استعمال کر رہے ہیں اور انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہے ۔ ان کے ریمارکس پر کوئی سرزنش نہیں ہوتی اور نہ کوئی ان سے جواب طلب کرنے والا ہوتا ہے ۔ اس اعتبار سے یہ لوگ بے لگام ہوتے جار ہے ہیں اور انتہائی غیر شائستہ الفاظ کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ انتخابی مہم کے گرتے ہوئے معیار کا ایک اور ثبوت ہے ۔ ملک کے رائے دہندوں کو اس بات کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان قائدین کی ذہنیت اور زبان کس سطح تک گرگئی ہے ۔ یہ لوگ اگر ملک کی حکمرانی کے دعویدار ہیں تو ہمیں ہمارے کلچر اور ہماری روایات کی پاسداری کیلئے کمرکسنے کی ضرورت ہے ۔ ایسی زبانیںا ستعمال کرنے والوںکو سبق سکھانا چاہئے ۔
جہاں تک بی جے پی کے قائدین کا سوال ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کو ایک الگ ہی دنیا میں لے جانا چاہتے ہیں۔ وہ ایک الگ ہی مزاج کو رائج کرنا چاہتے ہیں جو ہندوستانی روایات کے مغائر ہے ۔ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتی لیکن بی جے پی کے قائدین کو ملک کی روایات اور تہذیب و ثقافت کی کوئی پرواہ اور فکر ہرگز نہیں ہے ۔ وہ صرف اپنی سوچ کو ہی ملک اور قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات انتہائی واضح ہے کہ یہ سوچ اور انداز انتہائی نازیبا ہے اور اسے گھٹیا بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی سوچ رکھنے والوں کی زبانوں کو لگام دیا جائے ۔ ان سے باز پرس کی جائے اور مستقبل میں غیر شائستہ زبان استعمال کرنے والوں کو عوامی زندگی سے دور کردیا جائے ۔