سیاستدانوں کی شکلیں اور کرتوت

دل ناکام نے کہا ہے کیا
اب بھی جینے کا کچھ مزہ ہے کیا
سیاستدانوں کی شکلیں اور کرتوت
ہندوستانی عوام کیا اپنے سیاستدانوں کی شکلیں اور کرتوت دیکھ دیکھ کر تنگ نہیں آتے؟ ہر پانچ سال کے دوران حکمراں طاقتوں کے ہاتھوں برباد ہونے کے باوجود دوبارہ ووٹ دیتے ہوئے یہی امید کرتے ہیں کہ اب کی بار کچھ اچھا ہوگا۔ اس اچھے کی خواہش پر ’’اچھے دن‘‘ لانے کا وعدہ کرنے والے لیڈر نریندر مودی کو ووٹ دیا گیا تھا۔ اب گذشتہ پانچ سال کے تجربے نے انہیں بیدار کردیا ہے تو آنے والے عام انتخابات میں ووٹ دینے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا جائے گا۔ یہ بھی دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہوگی کہ ان کا ووٹ اس بار ایسی غلط جگہ نہ جائے جو دستوری اداروں کو تباہ کرنے والی کارروائیوں کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو۔ عوام الناس کو اس دور کی صورتحال کا بخوبی علم ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے وعدوں اور دھوکہ بازیوں کا سامنا کرتے ہوئے بہت تلخ تجربات ہوئے ہیں۔ موجودہ مرکزی حکومت کا آخری بجٹ سیشن جاری ہے اس پارلیمانی سیشن کو جس طریقہ سے چلایا جارہا ہے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ این ڈی اے حکومت میں ایسی پارٹیاں بھی ہیں جو سیکولر عوام کے ووٹ لیکر بی جے پی کا ساتھ دے رہی ہیں لیکن عوام کو ان پارٹیوں سے بھی کوئی راحت نہیں ملی ہے۔ کسی بھی شعبہ میں عوام کیلئے کوئی خاص بات نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے آخری سیشن سے بھی جو توقع وابستہ تھی وہ بھی ختم ہوچکی ہے۔ این ڈی اے حکومت کے تعلق سے عوام کے ذہنوں میں اب یہی بات پیدا ہوگی کہ اس حکومت نے انہیں کیا دیا ہے؟ اقتدار پر پانچ سال رہنے والی این ڈی اے حکومت نے صرف حیلے بازیوں سے کام لیا ہے۔ اچھے دن دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ البتہ مودی اور ان کے حامیوں کیلئے اچھے دن ضرور دیکھے گئے ہیں۔ مرکز کے عبوری بجٹ نے بھی عوام کو مایوس کردیا ہے۔ عوام کی تشویش کو دور کرنے میں بھی یہ بجٹ سیشن ناکام رہا ہے۔ عوام کو ان سیاسی چالوں کے بارے میں چوکنا رہناہوگا۔ اپنی بجٹ خرابیوں کو پوشیدہ رکھنے کیلئے وزیراعظم نریندر مودی نے اپوزیشن کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے خاص کر چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی۔ ان کی تقاریر ایک سیکولر ملک کے وزیراعظم کے شایان شان نہیں ہیں لیکن ووٹ لینا ہے تو جھوٹ بھی بولنا پڑے گا۔ اسی جھوٹ کے سہارے پانچ سال گذار دیئے گئے اب عین انتخابات کے موقع پر اپوزیشن کو برا بھلا کہنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جارہی ہے۔ وزیراعظم مودی نے اپنی بجٹ تقریر 2018ء میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ کسان دوست، عام شہری کے دوست، تجارتی فضا قائم کرنے والے دوست اور ترقی کے دوست ہیں۔ ہندوستانی عوام کو ایک خوشحال زندگی دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں بری طرح ناکام مودی حکومت زرعی بحران کو بھی ٹالنے سے قاصر رہی ہے۔ تاجر برادری بھی اس حکومت سے ناخوش ہے۔ جی ایس ٹی نے تاجروں کی کمر ہی توڑ دی ہے۔ عبوری بجٹ نے اس حکومت کی طویل ناکامیوں کی کہانی کو ہی عیاں کیا ہے۔ جب کسی پارٹی کے نزدیک عوام کی خدمت سے زیادہ پارٹی ترجیحات عزیز ہوتے ہیں تو اس سے صرف پارٹی کو ہی فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ آج بی جے پی کو مالیاتی طور پر سب سے دولتمند پارٹی بنادیا گیا ہے لیکن اس پارٹی کو ووٹ دینے والے کنگال ہی رہ گئے ہیں۔ اس حکومت کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے کھل کر پیش کرنے میں اپوزیشن بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نریندر مودی زیرقیادت حکومت نے دولت کمائی ہے۔ اس پارٹی کے خزانے میں جمع دولت کے انبار کے ذریعہ ہی وہ تشہیری مہم کے ذریعہ عوام کے دل و دماغ کو معاون کرنا چاہتی ہے۔ یہ ستم ظریفی ہی ہیکہ مودی حکومت کے پیش کردہ عبوری بجٹ کو سب سے بہترین بجٹ قرار دیکر بی جے پی کامیابی کے نقارے بجارہی ہے۔ صرف تنخواہ یاب طبقہ کی حد آمدنی میں اضافہ کرنے سے معاشی اور مالیاتی مسائل دور نہیں ہوجاتے۔ عوام کے سامنے تبدیلی لانے کا فاصلہ بہت کم رہ گیا ہے۔ چند ہفتوں کے بعد جب انہیں دوبارہ ووٹ ڈال کر نئی حکومت بنانے کا اختیار حاصل ہوگا تو ووٹ دینے اور بعداز منتخب کرنے کے درمیان جس ہوشمندی کی ضرورت ہوتی ہے اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس حکومت کے تعلق سے ہر گوشے سے جو رائے اٹھ رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہیکہ اپوزیشن نے مودی حکومت کو بیدخل کرنے کیلئے ہنوز خاص حکمت عملی تیار نہیں کی ہے۔ مودی حکومت کو دوبارہ موقع دینے کی فکر رکھنے والے رائے دہندوں تک اپوزیشن پارٹیوں نے ہنوز رسائی حاصل نہیں کی۔ جب لاکھ خرابیوں کے باوجود عوام کی بڑی تعداد آزمودہ پارٹی کو ہی پسند کرنے کا مظاہرہ کرتی ہے تو پھر اس کے اسباب کیا ہیں یہ پتہ چلانا اپوزیشن کا کام ہے۔
رابرٹ وڈرا کے اثاثے اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ
رشوت ستانی، غیرقانونی تجارت، رقومات کی غیرقانونی منتقلی اور دیگر برائیوں کا خاتمہ کرنے کیلئے ہندوستان میں اہم تحقیقاتی و قانونی ادارے ہیں۔ یہ ادارے اس وقت تک غیرجانبداری سے کام کرتے ہیں تاوقتیکہ وہ سیاسی آقاؤں کے تلوے چاٹنے والے نہ ہوں۔ حالیہ برسوں میں سیاست کے اندر مذہب کا استعمال زیادہ ہوگیا تھا اب اس میں ایک نئی لہر شروع کردی گئی، وہ انسداد رشوت ستانی کے نام پر سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کا استعمال خاص سیاسی مخالفین کیلئے ہورہا ہے تو پھر انسداد رشوت ستانی کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ کانگریس صدر راہول گاندھی نے جب مودی حکومت کے خلاف رافیل معاہدہ میں بدعنوانی کا مسئلہ اٹھایا تو مودی حکومت نے راہول گاندھی کے بہنوئی رابرٹ وڈرا کے اثاثہ جات کے بارے میں تحقیقات کروانے شروع کئے۔ ای ڈی کے ذریعہ ان سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ متنازعہ تاجر رابرٹ وڈرا اگر سیاسی انتقام کا شکار ہیں تو پھر ان کی اہلیہ پرینکا گاندھی کو آنے والے 2019ء لوک سبھا انتخابات میں اپنی ساکھ بنانے سے پہلے ہی اس سیاسی ساکھ کو بچانے کی فکر کرنی پڑے گی۔ ویسے پرینکا گاندھی نے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کے ہیڈکوارٹر تک پہنچ کر اپنے شوہر کا ساتھ دیا ہے تو اس کا سیاسی حلقوں میں شدت سے ذکر ہوتا رہا ہے۔ اپنے خاندان کا معاملہ ہونے کا ادعا کرنے والی پرینکا گاندھی کو اپنے شوہر کی وجہ سے سیاسی نقصان اٹھانا پڑے تو یہ بہت بڑا دھکہ ہوگا۔ اس کیلئے کانگریس کے نوجوان قائدین کو محتاط طریقہ سے سیاسی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ نریندر مودی نے ویسے جس انسداد رشوت ستانی کے علمبردار بن کر 2014ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اب وہ غبار چھٹ چکا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے انسداد رشوت ستانی کا یہ منتر اس لئے پڑھا تھا کہ اپنے سیاسی حریفوں کو چپ کراسکیں اور رابرٹ وڈرا کا کیس بھی ایسا ہی ہے۔