سپریم کورٹ نے مدرسہ بورڈ کے اساتذہ کوتین سال سے تنخواہیں نہ ملنے پر سخت رویہ اپنا 

نئی دہلی : ہندوستان کی ۱۱؍ریاستوں میں چل رہے مدرسہ بورڈ کے اساتذہ کو نہ صرف تین سالوں سے تنخواہیں نہیں ملی بلکہ اسکول او رمدارس کے کئی کام رک گئے ہیں ۔اس تعلق سے عدالت عظمی میں عرضی داخل کی گئی ہے ۔ جس پرعدالت نے مرکزی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل اور۱۸؍ ریاستوں کے ایجوکیشن سکریٹیری کونوٹس جاری کی اور ان کے جواب طلب کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایجوکیشن کے اسپیشل پروجیکٹ کو فنڈ جاری نہیں کیا جارہا ہے ۔

ایڈوکیٹ طیبہ صدیقی کی جانب سے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں چل رہے مدرسہ بورڈ کے ٹیچرز کو گذشتہ تین سالوں سے تنخواہیں نہیں دی گئی ہے ۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ جامعہ اسلامیہ ملیہ کی پروفیسر عذرا رزاق کی چیر پرسن شپ میں بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات کو کیو ں نافذ نہیں کیا جارہاہے۔ ان سفارشات کے مطابق اسکولوں اور مدارس میں کوالٹی ایجوکیشن لانے کے لئے ضروری ہے کہ معلم و اساتذہ کو سرکاری اسکولس کے اساتذہ کے مساوی تنخواہیں دی جائیں او رساتھ ہی اسکولوں او رمدارس میں ٹیچرز ریسورسنٹر ، کمپیوٹر، لائبریری ، سائنس لیب بھی قائم کیا جائے ۔

سپریم کورٹ نے عرضی قبول کرتے ہوئے مرکزی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل او ر۱۸؍ ریاستوں کے تعلیمی سکریٹیز کو نوٹس جاری کرکے ان سے جواب طلب کیا ۔واضح رہے کہ پورے ملک کی ۱۱؍ریاستوں میں مدرسہ بورڈ قائم ہیں جن سے تقریبا ۲۲؍ ہزار مدارس ملحق ہیں اور ان مدارس میں تقریبا ڈھائی لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ 1990ء میں مدرسہ موڈرنائزیشن کے نام سے ایک اسکیم چلائی گئی تھی جس میں ۲۰۰۳ء میں ترمیم کر کے ا سکا نام اسکیم فار پرووائیڈنگ کوالٹی ایجوکیشن ان مدرسہ رکھا گیا ہے ۔جس کے تحت ایک مدرسہ میں جدید تعلیم دینے کیلئے تین اساتذہ کاانتظام کیاگیا اوران کی تنخواہیں حکومت کے ذمہ ہے ۔مگر افسوس کی با ت ہے کہ مدرسہ بورڈ کے تحت اساتذہ کو محض چھ ہزار روپے ماہانہ دیئے جاتے ہیں ۔

اس سلسلہ میں پروفیسر حلیم خان ودیگر افراد بتا تے ہیں کہ مدارس اپنے ذرائع سے تنخواہ کا انتظام کررہے ہیں لیکن کب تک یہ بودجھ مدارس اٹھاتے رہیں گے ۔ آخر کار مدارس میں چل رہا ماڈرن ایجوکیشن کا سیکشن بند کرنا پڑے گا ۔