سپریم کورٹ میں مرکز کا حلف نامہ

ہاتھ سے اپنے رواداری نہ جانے پائے
اس لئے میں ہوں پریشان یہ دیکھا تم نے
سپریم کورٹ میں مرکز کا حلف نامہ
مرکزی حکومت نے انسانیت کی بنیاد پر سوچنا ترک کردیا ہے تو وہ آگے چل کر کچھ بھی فیصلے کرسکتی ہے۔ اس طرح کی حکمرانی ہر انسان کے لئے خطرہ کا باعث کہلائے گی۔ روہنگیائی مسلمانوں کے ہندوستان میں قیام کو غیرقانونی تارکین وطن قرار دے کر مرکز نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا ہے۔ مرکز کا یہ استدلال کہ ملک کے کسی بھی علاقہ میں قیام کرنے والے روہنگیائی مسلمانوں سے ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس دیپک مشرا کی قیادت میں ایک بنچ نے حکومت کے پیش کردہ حلف نامہ کی بنیاد پر ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے بیان کی سماعت کی ہے۔ مرکزی حکومت نے اپنا یہ حلف نامہ انسانیت کی بنیاد پر غور و فکر کئے بغیر داخل کیا ہے جبکہ دستور کی جس دفعہ کا حوالہ دیا ہے یعنی دفعہ 119 میں ہندوستان کے کسی بھی علاقہ میں سکونت اختیار کرنے والے کو جو حق دیا گیا ہے وہ پورے ہندوستان میں آزادانہ نقل و حرکت کا حق بھی رکھتا ہے اور یہ حق صرف اور صرف ہندوستانی شہریوں کو حاصل ہے۔ کوئی بھی غیر قانونی تارکین وطن عدالت میں درخواست نہیں کرسکتا جو اس کے بنیادی حقوق سے متعلق ہو۔ روہنگیائی مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی مرکزی حکومت اگر انسانیت کی بنیاد پر غور کرے تو اسے احساس ہوگا کہ یہ لوگ کس حد تک ظلم و زیادتیوں کا شکار بنے ہیں۔ مرکز میں موجودہ قیادت کے پس منظر کا جائزہ لیں تو یہ تو ہندوستانی مسلمانوں کو بھی دوسرے درجہ کا شہری مانتی ہے، اس نے اپنے فرقہ پرستانہ نظریہ کی بنیاد پر ہی ہندوستان میں عدم سلامتی کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ وہ ہمدردانہ سلوک کرے گی یہ اس کے مزاج کے برعکس ہے۔ اپنی سوچ کے مطابق ہی اس نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ اس کا اپنا ایجنڈہ اور پروپگنڈہ ہے کہ پاکستان کی آئی ایس آئی اور آئی ایس آئی ایس داعش کے اشاروں پر روہنگیائی مسلمان اس ملک میں بدامنی پھیلاسکتے ہیں۔ حکومت کا یہ منفی خیال غیر ضروری اور شرپسندانہ سمجھا جائے گا۔ مجبور اور بے بس انسان اپنی جان بچاکر کسی سہارے کی تلاش میں نکلتا ہے تو اس کے ساتھ انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے مگر ہندوستانی قیادت کا رویہ اس کے بالکل برعکس معلوم ہوتا ہے۔ملک کے دستور نے انسانوں کے تحفظ کی بات کہی ہے تو روہنگیائی مسلمان بھی اس دستور کی دفعات 12اور 14 کے تحت تحفظ کے حقدار ہوں گے۔ ہندوستان ایک کشادہ دلی کا جذبہ رکھنے والا ملک ہے، یہاں کے عوام انسانی قدروں کا لحاظ رکھتے ہیں۔ عوام کے جذبہ انسانیت کو مرکزی حکومت اپنی غیر انسانی سوچ کے ذریعہ اُٹھائے جانے والے قدموں تلے روند نہ دے۔ اس کا ایسا کرنا ہندوستانی عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہوگا۔ حکومت نے روہنگیائی مسلمانوں کے تعلق سے جن اندیشوں و شبہات کا اظہار کیا ہے اس کی جانچ کروائی جاسکتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب تک ہندوستان میں مقیم روہنگیائی مسلمانوں کا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق ہونا ثابت نہیں ہوا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض روہنگیائی مسلمانوں نے غیر قانونی طور پر جعلسازی کے ذریعہ قانونی دستاویزات تیار کرنے کی کوشش کی اور وہ پکڑے بھی گئے ہیں، انہیں ان کی حرکتوں کی سزا ملے گی ۔ لیکن ان چند لوگوں کی وجہ سے تمام پریشان حال روہنگیائی مسلمانوں کی زندگیوں کو دوبارہ خطرہ کی جانب ڈھکیل دینا یہ ہندوستانی اقدار کے برعکس ہوگا۔ماینمار میں اس وقت کیا ہورہا ہے اس سے دنیا واقف ہے۔ تشددکی مہیب آگ میں پھنسے روہنگیائی مسلمانوں کو فاقوں کی زندگی گذارنی پڑرہی ہے، راکھین میں بدھسٹوں کی زیادتیوں نے مسلمانوں کو لاچار ، مجبور اور بے یارومددگار کردیا ہے۔ ایسے میں ان مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے راہداری فراہم کرنا ہر ملک کا انسانی فریضہ ہے۔ حقوق انسانی کے جذبہ کو پامال کرنے والے واقعات افسوسناک ہیں۔ حکومت ہند کو بھی ہمدردانہ غور و فکر کے ساتھ روہنگیائی مسلمانوں کی مدد کے لئے آگے آنا چاہیئے۔ روہنگیائی مسلمانوں کا مسئلہ حساس نوعیت کا ہے، اس پر صرف نرم دلی سے ہی غور کیا جائے تو راحت کی کوئی راہ نکالی جاسکے گی۔ نفرت یا شرپسندانہ ایجنڈہ کے تحت کام کیا جائے تو یہ غیر انسانی فعل تصور کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ سے اُمید ہے کہ وہ اس نازک مسئلہ کا انسانی قدروں کے آئینہ میں جائزہ لے گا۔