سونے کی چڑیا۔ مغل دور میں ہندوستان امریکہ‘ یوکے ‘ چین او رجاپان سے آگے تھا۔ویڈیو

حیدرآباد۔بابر نے جس وقت دہلی کی سلطان ابراہیم لودھی کو1526اے ڈی میں شکست دے کر مغل حکمرانی کی بنیاد ڈالی ‘ اس کے بعد سے 1600اے ڈی تک ہندوستان کی معیشت دنیا کے چوتھے نمبر پر تھی۔

جب1600اے ڈی میں اکبر ہند کے سلطان بنے اس وقت ملک کے جی ڈی پی فرانس‘ جرمنی ‘ جاپان ‘ امریکہ وغیر ہ سے زیادہ تھا۔نیدر لینڈس کی گورینگین یونیورسٹی کی تفصیلات بتاتے ہیں کہ ہندوستانیوں کا شمار دنیا کے دولت مند ترین لوگوں میں تھا

سولہویں صدی سے اٹھاریوں صد ی تک مذکورہ مغل دور حکمرانی دنیا کا سب سے امیر ترین اور طاقتور مملکت تھی جیسا کہ فرانس کے ایک سیاح فرانسکوئس بیرنیر جو سترویں صدی میں ہندوستا ن آیاتھا نے لکھا ہے کہ ’’ دنیا کے پاؤ حصہ سے سونا او رچاندی ہندوستان لایاجاتاتھا‘‘۔

مغلوں نے سڑکوں‘ ندی کے ذریعہ ٹرانسپورٹ‘ سمندری راستوں ‘ بندرگاہوں اور ٹیکس اور اندروانی اوزار کے فروغ کے ذریعہ صنعت کو بڑھاوا دیا تھا۔

اشیاء جات جیسے کاٹن کے کپڑے‘ مصالحے‘ اونی او رسلک کپڑے ‘ نمبر وغیرہ کی بڑے پیمانے پر درامد کا سلسلہ بھی کیاگیا تھا۔اکبر کے تیارکردہ انتظامیہ نے صنعت اور کامرس کے لئے ایک بہترین ماحول فراہم کیاتھا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغلوں سے صنعت میں رعایت مانگی جو اس پر قبضہ اورتباہی کا سبب بنا ۔مغل نے انفرسٹکچر اور عظیم شاہکار کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی جو آج بھی مقامی او رٹورسٹوں کے ذریعہ سالانہ کروڑ ہا روپئے کی آمدنی کاذریعہ بنا ہوا ہے۔

لوک سبھا میں وزارت کلچرل کی جانب سے پیش کردہ اعداد وشمار کے مطابق صرف تاج محل جس کی تعمیر شاہجہاں نے کی تھی اس کے ٹکٹ کی فروخت سے سالانہ 21کروڑ کی آمدنی ہوتی ہے۔

 

پچھلے سال تاج محل کو دیکھنے کے لئے آنے والوں میں کمی کے پیش نظر 17.8کروڑ روپئے کے ٹکٹ ہی فروخت ہوئے تھے۔

قطب عمارت ٹکٹ کے فروخت کے ذریعہ 10کروڑ روپئے کماتے ہیں‘ لال قلعہ اور ہمایوں کے مقبرہ سے سالانہ چھ ‘ چھ کروڑ کی آمدنی ہے۔

ان لوگوں نے مقامی آرٹ اینڈ کرافٹ میں سرمایہ کاری ہے اور قدیم کو فروغ دیتے ہوئے نئے ہندوستان میں نئے سلک سیٹس تیار کئے۔

کنونیر انٹیک دہلی چیاپٹر سواپنا لیڈڈلی نے کہاکہ’’ میری دانست میں مغلوں کے لئے عظیم تعاون ارٹس کے حوالے سے ہے۔

چاہے وہ بلڈنگ ‘آرائشی دستکاری جیسے میٹل کاکام ہے۔ یاپھر فائن ارٹس جیسے پینٹنگ۔ذائقہ کے معیار کو تعین کرتے ہوئے ہندوستان کو دنیا بھر میں مقبول کیاجس سے آج بھی لطف اندوز ہورہے ہیں‘‘