سوشیل میڈیا ڈیٹا تنازعہ

وہ جرم کرکے بھی گمنام ہے زمانے میں
نہ جانے کیوں میری خاموشیوں کا چرچا ہے
سوشیل میڈیا ڈیٹا تنازعہ
جدید ٹکنالوجی کے اس دور میں ٹیکنیکل ماہرین یا ٹیکنوکریٹس کا اہم مقام ہونا چاہئے ۔ مرکز کی مودی حکومت نے ٹکنالوجی کے استعمال کے ذریعہ اپنے پروگراموں اور پالیسیوں سے عوام کو واقف کروانے کی خاطر ایک ایپ کا آغاز کیا تو اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے اس ایپ کا نام نامو NaMo App رکھنے پر تنقید کی ہے ۔ سائبر سیکوریٹی ریسرچرس کے الزامات ہیں کہ نریندر مودی نے جو ایپ تیار کیا ہے اس کے ذریعہ رجسٹرڈ یوزرس ڈیٹا کے ذریعہ اپنی بات پھیلائی جارہی ہے ۔ اس کے لیے امریکہ کی انالیٹکس فرم کا استعمال کیا گیا ہے ۔ جب کہ بی جے پی نے راہول گاندھی کی ان تنقیدوں کے جواب میں کہا کہ راہول گاندھی کی ٹکنالوجی کی زیرو نالج ہے اور وہ کیمبرج انالیٹکس تنازعہ سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ہر دو جانب عوامی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنے اپنے مفادات اور سیاسی منفعت کو عزیز بتاتے ہوئے وقت ضائع کررہے ہیں ۔ ملک میں جب سے ڈیجیٹل انڈیا کی باتیں ہونی شروع ہوئیں تو وزیراعظم نریندر مودی نے سوشیل میڈیا کا خوب استعمال کیا ہے ۔ پی ایم او میں ماہرین کا تقرر کر کے یا پھر حکمراں پارٹی کے ہیڈکوارٹرس پر ٹیکنوکریٹس کے ذریعے عوام کے سیل فونس تک رسائی حاصل کر کے اپنے پیغامات کی ترسیل کی ہے ۔ 2014 کے انتخابات سے قبل اور اس کے بعد گذشتہ چار سال سے سوشیل میڈیا کو حکومت کے مخصوص پروگراموں کی تشہیر کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ سرکاری محکموں میں تعینات ٹیکنوکریٹس کی اپروچ عوام تک نہیں ہوتی لیکن عام سیاستداں اس ٹکنالوجی کے ذریعہ گراس روٹ لیول تک پہونچنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ گراس روٹ سیاستداں اگرچیکہ زیادہ پڑھا لکھا نہ ہو لیکن اس کی پہونچ زیادہ بلند ہوتی ہے کیوں کہ یہ سیاستداں عوام کو گمراہ کرنے میں ماہر ہوتے ہیں ۔ مرکز میں نریندر مودی اور راہول گاندھی جیسے سوشیل میڈیا پر چھائے رہنے والے قائدین نے اپنی ماہرانہ ٹکنالوجی معلومات کے ذریعہ سیاسی جنگ چھیڑدی ہے ۔ بی جے پی آج جس ٹکنالوجی کے ذریعہ اپوزیشن لیڈر کو زیرو نالج کا حامل سیاستداں قرار دے رہی ہے تو وہ صرف انتخابات میں جیتنے کے لیے کسی بھی حد تک اظہار خیال کو اپنا حق سمجھتی ہے ۔ جیسا کہ مودی حکومت کے ایک وزیر نے آدھار ڈیٹا کے تعلق سے پیدا ہونے والے تنازعہ پر تلخ تبصرہ کرتے ہوئے تمام ہندوستانیوں کی توہین کی ہے ۔ مملکتی وزیر الکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی نے آدھار مسئلہ پر اپوزیشن پارٹیوں کے شور کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد یہ اپوزیشن غیر ضروری ہنگامہ برپا کررہی ہے ۔ میڈیا رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آدھار کے ڈیٹا کو منکشف کیا جاسکتا ہے اور ہر ہندوستانی شہر کی ذاتی معلومات اور اس کی شخصی شناخت کھلے عام آشکار ہوسکتی ہے ۔ اس مسئلہ پر مملکتی وزیر نے جواب دیا کہ جب لوگ امریکہ کا ویزا حاصل کرنے کے لیے 10 صفحات کا ویزا فارم کی خانہ پری کرتے ہیں اور اپنی انگلیوں کے نشان دیتے ہیں اور ایک سفید فام امریکی کے سامنے اپنے جسم کو برہنہ کرتے ہیں تو انہیں اس وقت شخصی راز داری کا خیال نہیں رہتا اور حکومت ( نریندر مودی حکومت ) نے ملک کے شہریوں سے ان کا مقام اور پتہ حاصل کیا ہے تو اس پر واویلا مچایا جارہا ہے ۔ مملکتی وزیر کے جے الفنس کا یہ بیان افسوسناک ہے ۔ سوال یہ نہیں ہے کہ ہندوستانی شہری بیرونی ملک کے ویزا کے لیے برہنہ ہوتے ہیں یا اپنا بائیو میٹرک ڈیٹا دیتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آدھار کی بنیاد پر معلومات اکھٹا کی جارہی ہیں اور اس ڈیٹا کو حکومت انتخابات کے دوران استعمال کرتے ہوئے اپنی تشہیر کررہی ہے ۔ عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی یہ ترکیب سراسر اختیارات اور عوام کے ذاتی تفصیلات کا بیجا استعمال ہے ۔ ہندوستان کے ہر شہری کا یہ دستوری حق ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کو آزادانہ طور پر گذارے لیکن مودی حکومت نے اس ڈیٹا کے ذریعہ غیر اصول اور غیر جمہوری طور پر اپنی کامیابی کا پروپگنڈہ کررہی ہے ۔ اس تناظر میں اگر اپوزیشن پارٹیوں خاص کر کانگریس ، سی پی آئی ایم نے حکومت پر تنقیدیں کی ہیں تو یہ عوام کے نمائندوں کی حیثیت سے آواز اٹھانا ان کا فرض ہے ۔ لہذا حکومت کو آدھار ڈیٹا کا غلط یا بیجا استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔۔