سنٹرل شیعہ وقف بورڈ اتر پردیش بد عنوا نیوں میں ملوث

نئی دہلی: سنٹرل شیعہ وقف بورڈ اتر پردیش کو سیاسی اکھاڑا بنا نے والے چیر مین سیم رضوی کی اس وقت ساری پول کھل گئی جب سنٹرل وقف کونسل حکومت ہند کی ٹیم نے بورڈ کے کاموں کا جائزہ لیا ۔اس شیعہ وقف بورڈ کو یہ نہیں پتہ کہ اس کا کام کیا ہے۔اور نہ ہی کوئی اراضی کا سروے کیا گیا۔

اور اہم بات یہ کہ وقف اراضی کا کمپوٹرائزیشن بھی نہیں ہوا۔سنٹرل وقف اراکین جسٹس برکت علی زیدی، محمد اکرام اللہ صدیقی ، محمد عر فان ، شوکت محمد خان ، اور محمد خورشید وارثی پر مشتمل کی ڈیم نے موقع پر جا کر جائزہ لیا۔اور اب بہت جلد اس کی رپورٹ مر کزی وزارت اقلیتی امور کو روانہ کی جائیگی۔محمد عر فان نے میڈیا سے بات کر تے ہوئے کہا کہ جس قسم کی کمیاں اور خامیاں اس بورڈ میں دیکھنے کو ملی اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ اس وقف بورڈ کو اب تک یہ نہیں پرہ کہ اس کا کام کیا ہے۔اور سب سے بڑی خامی یہ کہ یہ وقف بورڈصوبائی اور مر کزی حکومت سے رابطہ میں نہیں ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ 1986/87سے لیکر اب تک ا س شیعہ وقف بو رڈ نے سنٹرل وقف کونسل کو ایک فیصد فیس تک ادا نہیں کی ۔انہوں نے بتا یا کہ ہر صوبائی وقف بورڈ کو اپنی آڈٹ رپورٹ سنٹرل وقف کونسل کو ادا کر نی پڑتی ہے۔

لیکن اس وقف بورڈ نے اب تک کوئی رپورٹ کونسل کو ادا نہیں یا۔انھوں نے کہا کہ افسوسناک بایت ہے کہ مر کزی اور صوبائی حکومت کے درمیان جو کوارڈی نیشن ہو نا چاہئے وہ بالکل نہیں ہے ۔

اس شیعہ وقف بورڈ نے تا حال کوئی اراضی کا سروے نہیں کیا۔محمد عرفان نے مزید بتا یا کہ ملک کے تمام وقف بورڈوں میں کمپیوٹر ائزیشن کا کام ہور ہا ہے لیکن یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔محمد عرفان نے بتا یا کہ وقف بورڈ کے پاس کوئی ٹریبونل رپورٹ نہیں ہے اور وکلاء کو فیس ادا کر نے کے لئے رقم بھی نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ۶؍ اکتوبر کو منیشا سیٹھی کی جانب سے سنٹرل وقف کونسل کے بے نامی جا ئداد کے تعلق سے ایک شکایت موصول ہوئی تھی چنانچہ ہم اس کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔عرفان احمد نے کہا کہ ہماری یہ رپورٹ تقریباً تیار ہو گئی ہے اور جلد ہم اس رپورٹ کو مر کزی وزارت اقلیتی امور کو روانہ کریں