سنت کی پیروی اور اُس کے تقاضے

ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی کوتاہ نظری پر غور کریں کہ ہم اسوۂ رسول اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنا بڑا ظلم کر رہے ہیں۔ ایک ایسا بے عمل مسلمان جو مذہب سے بالکل بیگانہ زندگی بسر کر رہا ہو، وہ بس اس حد تک مسلمان ہے کہ کلمہ گو ہے، خدا اور رسول پر تقلیدی ایمان رکھتا ہے۔ اس سے آگے اس کی کتاب زندگی بالکل سادہ ہے، اعمال صالحہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ان حالات میں وہ کسی کے وعظ و نصیحت سے متاثر ہوکر مذہب کی طرف رجوع ہوتا ہے تو اس کی توجہ کا مرکز عبادت ہوتی ہے۔ نماز، روزے کی طرف راغب ہوتا ہے، یعنی پہلے بے نمازی تھا اور اب نماز پڑھنے لگا۔ پہلے روزے نہیں رکھتا تھا اور اب رکھنے لگا۔ اسی طرح وہ حج اور زکوۃ کی طرف بھی مائل ہوتا ہے۔ اتنا کرنے کے بعد وہ خود کو دیندار سمجھنے لگتا ہے اور اس کے اندر احساس ابھرآیا کہ وہ دین کے تقاضے پورے کر رہا ہے اور لوگ بھی اس کو دیندار سمجھ رہے ہیں۔ اسی مذہبی رجحان کے بعد اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا خیال آتا ہے تو اس نے حلیہ اور لباس کی سنتیں اختیار کرلیں۔ یہ اس کی دینداری کی حد ہے۔ وہ سمجھ رہا ہے کہ دین اتنا ہی ہے، جسے میں نے اچھی طرح اپنا لیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دو بہت بڑی غلط فہمیوں میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اس کی پہلی غلط فہمی تو یہ ہے کہ وہ صرف عبادات کو مذہب اور مذہب کے تقاضے سمجھ رہا ہے، لیکن فی الحقیقت ارکان اسلام کی بجا آوری کے بعد وہ صرف بیس (۲۰) فیصد مسلمان ہوا، اس لئے کہ دین کے پانچ شعبے ہیں: (۱) عقائد (۲) عبادات (۳) معاملات (۴) اخلاق اور (۵) معاشرت۔ اس نے ان پانچ شعبوں میں سے صرف عبادات کو لے لیا ہے اور باقی چار شعبوں سے قطعی غیر متعلق ہے، تو ظاہر ہے کہ وہ دائرۂ اسلام میں بیس (۲۰) فیصد داخل ہوا، حالانکہ اللہ تعالی کا مسلمانوں سے مطالبہ دین میں پورے داخل ہونے کا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقوش قدم کی پیروی نہ کرو، کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ اس کھلے دشمن کی چال دیکھئے کہ اس نے بڑی آسانی سے اس بندۂ خدا کو یہ بات سمجھادی کہ عبادت ہی میں لگے رہو، بس یہی دین ہے، یعنی صرف عبادت کی طرف اس نے ذہن کو موڑ دیا اور باقی چار شعبوں سے غافل کردیا۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے وہ بیس فیصد ہی مسلمان رہا اور اسی (۸۰) فیصد کی طرف اس کی توجہ ہی نہ گئی، یعنی اس کے نہ عقائد درست ہیں نہ معاملات، نہ اخلاق ، نہ معاشرت۔
اس کی دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ جب اس کو سنتوں کے اہتمام کا خیال آیا تو شیطان نے اس کو صرف حلیے اور لباس کی سنتیں سمجھادی اور باقی سنتوں کی طرف سے اس کو غافل کردیا، حالانکہ حلیے اور لباس کی سنتوں کا تعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شخصی مزاج مبارک، علاقائی طرز معاشرت اور آپﷺ کے عہد مبارک کے عربی تمدن سے زیادہ گہرا ہے۔ ان دونوں چیزوں پر تاریخ اور جغرافیہ بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ برصغیر میں عہد مغلیہ کا جو تمدن تھا، کیا آج وہ تمدن باقی ہے؟۔ اس زمانے کا جو لباس تھا، کیا آج وہ باقی ہے؟۔ اس سے پہلے خاندان غلامان کے دور حکومت میں جو تمدن تھا، کیا وہ آج باقی ہے؟۔ پھر موسموں کے حالات، سردی گرمی کے اثرات، آب و ہوا کی تبدیلی بھی ان چیزوں کو بدل دیتی ہے۔ اسی طرح میکسیکو کا لباس کیا برصغیر میں یا برصغیر کا لباس میکسیکو میں پہنا جاسکتا ہے؟۔ داڑھی کے علاوہ ان چیزوں کو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرز عمل سے فروعی اور ثانوی حیثیت دے دی ہے۔ مثلاً سر کے بالوں میں آپﷺ کی سنت یہ ہے کہ کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈایا بھی ہے اور کبھی آپ نے کانوں کے درمیانی حصہ تک بالوں کو دراز رکھا ہے۔ کبھی آپﷺ نے کان کی لووں تک بالوں کو دراز رکھا اور کبھی شانوں تک زلفوں کو دراز رکھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل خود بتا رہا ہے کہ دین میں ان کی کوئی اصولی حیثیت نہیں ہے۔
انبیاء کرام علیہم السلام اخلاق حسنہ کی تعلیم و تلقین کے لئے آتے ہیں، قلب و ذہن اور فکر و نظر تبدیل کرنے کے لئے آتے ہیں، حلیے تبدیل کرنے نہیں آتے۔ اور یہ ممکن بھی نہیں کہ دنیا کے تمام انسانوں کے لئے ایک لباس اور ایک ہی حلیہ قیامت تک کے لئے متعین کردیا جائے۔ انسان کا فطری تقاضا ہے کہ ان امور میں شخصی مزاج، قومی یا علاقائی معاشرت اور تمدن کی رعایت رکھی جائے۔ پھر بھی ایک حقیقت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام سنتیں ایک ہی درجے کی نہیں ہیں، بعض سنتیں ایسی ہیں جنھیں ہم تشریعی سنت کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً نماز کا طریقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے بارے میں صرف اتنا حکم ہے کہ ’’نماز قائم کرو‘‘۔ یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ نماز کس طرح پڑھی جائے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ نماز کس طرح پڑھی جائے۔ اس بارے میں آپﷺ نے واضح طورپر ارشاد فرمایا: ’’نماز اس طرح پڑھو، جس طرح تم مجھے پڑھتا ہوا دیکھتے ہو‘‘۔ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی سنت ہے، اس کی حیثیت قرآن کے ایک مجمل حکم کی تفصیل ہے، حکم خداوندی کی تشریح ہے، جس کا تعلق منصب رسالت کے فرائض سے ہے۔ اب اگر کوئی شخص چاہے کہ میں سجدے پہلے کرلوں اور رکوع بعد میں کرو، یا قرآن کے کسی حصے کی تلاوت پہلے کرلوں اور سورۂ فاتحہ بعد میں پڑھ لوں تو یہ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی سنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کی نماز ہی نہ ہوگی۔
ہر چیز کا یا ہر حکم کا ایک تو مقصود اصلی ہوتا ہے اور یہی اس کی روح ہوتی ہے۔ دوسرے اس چیز یا حکم کی صورت ہوتی ہے، جس کو ہم قالب بھی کہہ سکتے ہیں۔ بعض امور ایسے ہوتے ہیں، جن میں روح اور صورت دونوں مطلوب ہوتے ہیں۔ مثلاً عبادات کہ ان کی روح خشوع و خضوع اور ان کا قالب ان کی شکل و صورت یا ان کا طریقہ، یہ وہ سنتیں ہیں جو مقاصد بعثت سے تعلق رکھتی ہیں اور یہاں دونوں ہی چیزیں مطلوب ہیں، یعنی خشوع و خضوع بھی اور ان کی مخصوص شکل و صورت بھی۔ یہی حال روزے، حج اور زکوۃ کا بھی ہے کہ ان میں روح اور قالب دونوں مطلوب ہیں۔ لیکن بعض امور ایسے ہوتے ہیں، جن کی روح تو ضرور ہونا چاہئے، لیکن قالب کی پیروی ہوبہو ضروری نہیں۔ مثلاً مسنون دعائیں، یہاں ہمیں آزادی ہے کہ روح کو برقرار رکھتے ہوئے ہم جو چاہیں قالب اختیار کرلیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو دعائیں فرماتے تھے، ان ہی الفاظ کے ساتھ دعائیں کرنا ہم پر لازم نہیں، بلکہ ان دعاؤں کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے جن الفاظ یا جس زبان میں چاہیں دعائیں کرلیں، شارع کا منشا پورا ہو جائے گا۔ اگر ہم حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ہی الفاظ کے ساتھ دعائیں کریں تو یہ مستحب اور مستحسن تو سمجھا جائے گا، لیکن یہ اتباع سنت کا لازمی تقاضا نہیں سمجھا جائے گا۔ (اقتباس)