سمجھوتہ دھماکہ کے ملزمین کی برات

غمِ فردا کا استقبال کرنے
خیال عہدِ ماضی آرہا ہے
سمجھوتہ دھماکہ کے ملزمین کی برات
بالآخر وہی ہوا جس کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے ۔ سمجھوتہ ایکسپریس میںہوئے دھماکہ کے مقدمہ میں چاروں ملزمین کو بری کردیا گیا ۔ عدالت نے ناکافی ثبوت و شواہد کی بنیاد پر ملزمین کو برا ء ت دیدی ۔ یہ استغاثہ کی ناکامی اور سیاسی مداخلتوں کا نتیجہ ہے کہ دہشت گردانہ حملہ کے ملزمین کو عدالت سے راحت مل گئی ۔ ان ملزمین کے خلاف جس طرح سے مقدمہ چلایا گیا تھا وہ خود بھی مشکوک کردینے والا عمل رہا ہے کیونکہ یہ شائد سیاسی مداخلت اور دباو ہی کا نتیجہ تھا کہ دوران سماعت مقدمہ سے کچھ ججس نے خود کو الگ کرلیا ۔ وہ اس کا حصہ بننا نہیں چاہتے تھے بالآخر اب اڈیشنل سشن جج نے انہیں بری کردیا جنہیں اس مقدمہ کی سماعت کی ذمہ داری گذشتہ سال اگسٹ میں دی گئی تھی ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی ملزمین کے خلاف ثبوت و شواہد پیش کرنے میںناکام رہی ہے جس کے نتیجہ میں انہیں خاطی قرار دیا جاسکے ۔ ثبوتوں کے فقدان کی وجہ سے عدالت انہیں بری کرتی ہے ۔ یہ تحقیقاتی ایجنسیوں کی بری طرح ناکامی ہے ۔ یہ بھی ایک تصویر ہے کہ اب تحقیقاتی ایجنسیاں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی بات کرینگی اور بالائی عدالت سے رجوع ہونگی لیکن جو بنیاد ملزمین کی براء ت کی رکھ دی گئی ہے اس پر کسی دوسرے فیصلے کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ یہ اندیشے بھی بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ آئندہ بھی اس سارے معاملہ میں محض ایک ڈھونگ کی طرح پیش کیا جائیگا اور وہاں بھی ہماری تحقیقاتی ایجنسیاں ملزمین کے خلاف ثبوت و شواہد پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہونگی اور ملزمین کو پہلے ضمانت اور پھر برا ء ت حاصل ہوجائیگی ۔ یہ صرف عوام کے سامنے کھیلے جانے کھیل ہیں جبکہ حقیقت تو یہی ہے کہ ملزمین کو بچانے کیلئے پوری سیاست کی گئی ہے اور سیاسی مداخلت اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر ہی ان کے خلاف ثبوت و شواہد کو موثر ڈھنگ سے نہ اکٹھا کیا گیا اور نہ عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے ۔ نہ صرف سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ بلکہ ہندو دہشت گردوں کے رول والے تقریبا تمام ہی مقدمات میںتحقیقاتی ایجنسیاں ملزمین کے خلاف ثبوت و شواہد یا تو اکٹھا کرنے سے گریزاں ہیں یا پھر انہیں عدالتوں میں پیش نہیں کیا جا رہا ہے ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک مسافرین سے بھری ہوئی ٹرین میں طاقتور دھماکہ ہوتا ہے ۔ 68 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ کئی دوسرے زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد جن ملزمین کو پولیس گرفتار کرتی ہے اور ان کے خلاف تحقیقات کی جاتی ہیں اور پھر ملک کی صف اول کی ایجنسی کو اس کی تحقیقات سونپی جاتی ہیں اور وہی ایجنسی اگر ملزمین کے خلاف ثبوت و شواہد پیش کرنے میں ناکام ہوجائے تو پھر اس ایجنسی کی کارکردگی پر ہی سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ جو عہدیدار اس کیس کی تحقیقات کے ذمہ دار تھے ان کی پیشہ ورانہ مہارت مشکوک ہوجاتی ہے ۔ ایک سنگین جرم ہوتا ہے اور استغاثہ کسی بھی ملزم کو سزا دلانے میں ناکام ہوجاتا ہے ۔ اگر سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ میں اسیمانند اور دوسرے ملزمین بے قصور ہیں تو پھر دھماکوں کا قصور وار کون ہے ۔ ہماری تحقیقاتی ایجنسیاں ان تک کیوں نہیں پہونچ پائی ہیں۔ کیا ہماری ایجنسیوں میں یہ صلاحیت نہیںہے کہ وہ ایک انتہائی سنگین جرم کے ملزمین تک رسائی حاصل کرسکیں۔ ان کے خلاف ثبوت و شواہد پیش کرسکیں اور انہیں قرار واقعی سزائیں دلا سکیں ۔ زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیںہوا ہے کہ کسی سنگین اور دہشت گردانہ حملے کے مقدمہ میںتحقیقاتی ایجنسیوں اور استغاثہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہو ۔ اس سے پہلے بھی ایجنسیوں کی ناکامی کی مثالیں موجود ہیں۔ ایسے میں ایجنسیوں کی کارکردگی پرسوال اٹھنا فطری بات ہے ۔
جو اندیشے اس تعلق سے پائے جاتے ہیں وہ یہی ہیں کہ ایسے معاملات میں جہاںہندو تنظیموں کے ارکان دہشت گردانہ حملوںمیں ملوث ہیں ان کی تحقیقات پر سیاسی دباو ہوتا ہے ۔ سیاسی مداخلت کے ذریعہ ایک مخصوص سوچ و فکر رکھنے والے ملزمین کو بچانے پر توجہ مبذول کی جاتی ہے اور عدالتوں میں ان ملزمین کے خلاف ایسی پیروی ہوتی ہے کہ انہیں وہاں سے باضابطہ رہائی مل جاتی ہے ۔ یہ سیاسی دباو قانون و انصاف کے اصولوں کے ساتھ کھلواڑ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ ہماری ایجنسیوں کی ناکامی بھی قابل فکر ہے ۔ جو ایجنسیاںانتہائی کارکرد اور عصری طریقہ اختیار کرتی ہیں وہی اگر ملزمین کو سزائیں دلانے میں ناکام ہوجائیں تو ان کی کارکردگی اور پیشہ ورانہ مہارت پر سوال اٹھنے فطری ہیں۔