سماج وادی پارٹی میں پھوٹ ، اکھلیش کی بغاوت

چیف منسٹر نے امیدواروں کی متوازی فہرست جاری کردی ، علحدہ انتخابی نشان پر مقابلہ

لکھنؤ ۔ 29 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) برسراقتدار سماج وادی پارٹی ایسا معلوم ہوتا ہیکہ منقسم ہوجائے گی جبکہ اکھیلیش یادو کے بعض حامی ارکان اسمبلی کہہ رہے ہیکہ ناراض چیف منسٹر امکان ہیکہ یوپی اسمبلی انتخابات کیلئے 235 امیدواروں کی متوازی فہرست آج رات جاری کردی۔ ناراض کیمپ کے ذرائع نے کہا کہ اکھیلیش 167 امیدواروںکی فہرست تیار بھی کرچکے ہیں جنہیں سماج وادی پارٹی کے سرکاری نامزد امیدواروں کے مقابلہ میں کھڑا کیا جائے گا۔ اپنے والد اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو سے ناراض چیف منسٹر نے کل اپنے وفاداروں بشمول ارکان اسمبلی جنہیں انتخابات کیلئے ٹکٹوں سے محروم کردیا گیا تھا، ایک اجلاس منعقد کیا تھا۔ یہ امیدوار ایک علحدہ انتخابی نشان کے ساتھ جو سماج وادی پارٹی کی علامت ’’سیکل‘‘ کے علاوہ ہوگا، مقابلہ حصہ لیں گے۔ اس طرح پارٹی میں پھوٹ پڑجانے کے امکانات مزید قوی ہوگئے ہیں۔ ایسا انتشار جو ماضی میں سماج وادی پارٹی میں نہیں دیکھا گیا۔ اس وقت ہورہا ہے جبکہ اہم اسمبلی انتخابات سر پر ہیں۔ آج کی صف آرائی گذشتہ چند ماہ میں بدترین اور دھماکو مرحلہ میں پہنچ گئی جبکہ ملائم سنگھ یادو نے انتخابی امیدواروں کی فہرست کا اعلان کرتے ہوئے اس میں سے چیف منسٹر کے حامی امیدواروں کے نام حذف کردیئے، جس کی وجہ سے چیف منسٹر کے حامی کیمپ میں تلخی پیدا ہوگئی۔ الجھن کا شکار چیف منسٹر اس مسئلہ کو سماج وادی پارٹی کے سربراہ سے رجوع کرنے اور امیدواروں کے انتخاب پر اپنی برہمی ظاہر کرنے کیلئے مجبور ہوگئے۔ آج دن بھر سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھی۔ اکھیلیش یادو نے ناراض ارکان اسمبلی سے اپنی قیامگاہ 5 کالیداس مارگ پر ملاقات کی اور سیدھے ملائم سنگھ کی رہائش گاہ روانہ ہوگئے تاکہ اپنی ناراضگی ظاہر کرسکیں اور امیدواروں کی تازہ فہرست جاری کرنے کیلئے ان پر دباؤ ڈال سکیں۔

اگر وہ اپنا راستہ الگ کرلینے کا منصوبہ بناتے ہیں تو ممکن ہیکہ اکھیلیش یادو کے ملائم سنگھ اور شیوپال یادو کے ساتھ اختلافات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ ملائم سنگھ یادو نے اکھیلیش یادو کی واپسی کے فوری بعد شیوپال یادو کو طلب کیا۔ سماج وادی پارٹی کے جنرل سکریٹری رام گوپال یادو سے بھی ملاقات کی جنہوں نے کہا کہ پارٹی کے بیشتر افراد اکھیلیش یادو کو دوبارہ چیف منسٹر کے عہدہ پر دیکھنا نہیں چاہتے۔ تاہم یہ حقیقت بھی برقرار ہیکہ ریاست کے عوام انہیں چیف منسٹر کے عہدہ پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اختلافات میں اس وقت شدت پیدا ہوگئی جبکہ ملائم سنگھ یادو نے پارٹی کے چیف منسٹری کے امیدوار کی حیثیت سے اکھیلیش یادو کا نام تجویز کرنے سے گریز کیا۔ فہرست کے اجراء کے فوری بعد 10 وزراء بشمول شیوپال یادو کو چیف منسٹر نے برطرف کردیا۔ یہ سابق وزراء واضح طور پر چیف منسٹر کی مخالفت کررہے تھے۔ بندیل کھنڈ سے لکھنؤ واپسی پر اکھیلیش یادو نے پارٹی قائدین کا ایک اجلاس طلب کیا اور ان کے شکایات کی سماعت کی۔ اکھیلیش یادو نے اپنے وفاداروں بشمول وفادار ارکان اسمبلی کی متوازی فہرست ملائم سنگھ یادو سے ملاقات کے چند گھنٹوں بعد جاری کردی۔