سماجوادی پارٹی میں اختلافات

ان کی ہی جستجو کا سہارا لئے ہوئے
اکثر انہیں کے سامنے سے ہم گزر گئے
سماجوادی پارٹی میں اختلافات
اترپردیش میں برسر اقتدار سماجوادی پارٹی اب عملا پھوٹ کے قریب پہونچ گئی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں اختلافات پارٹی کے الگ الگ قائدین میں نہیں بلکہ ایک ہی گھر کے دو افراد کے مابین ہوا پا رہے ہیں۔ یہ اختلافات پارٹی سربراہ ملائم سنگھ یادو اور اترپردیش کے چیف منسٹر اکھیلیش سنگھ یادو کے مابین پیدا ہوگئے ہیں اور ان میںاس قدر شدت پیدا ہوگئی ہے کہ والد ملائم سنگھ یادو نے فرزند اکھیلیش یادو کو نوٹس وجہ نمائی تک جاری کردی ہے ۔ یہ سب کچھ سیاسی اتھل پتھل ایسے وقت میں ہو رہی ہے جبکہ اترپردیش میں انتخابات کا موسم قریب ہے ۔ آئندہ چند دنوں میں کسی بھی وقت یہاں انتخابات سے متعلق اعلامیہ جاری کیا جاسکتا ہے ۔ ویسے تو پارٹی میں اختلافات چند ماہ قبل ہی پیدا ہوگئے تھے ۔ اس وقت بھی وہاں باپ بیٹے کے مابین اختلافات ہی تھے لیکن اس وقت اس میں کچھ دوسرے قائدین نے ہوا دینے کا کام کیا تھا ۔ انہوں نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا تھا ۔ کہا جا رہا ہے کہ جس وقت سے امر سنگھ سماجوادی پارٹی میں واپس ہوئے ہیں اس وقت سے وہ پارٹی کے اصولوں کو محض ملائم سنگھ یادو کی شخصی مدح سرائی کے عوض پامال کرتے جا رہے ہیں۔ وہ خود کو سماجوادی کا حامی نہیں بلکہ ملائم سنگھ یا حامی کہتے ہیں۔ یہ تصور پیدا کردیا گیا ہے کہ سماجوادی پارٹی کا حامی ملائم سنگھ یادو کا حامی نہیںہوسکتا ۔ یہ درست ہے کہ سماجوادی پارٹی میں ملائم سنگھ یادو ہی سب کچھ ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ عوام نے سماجوادی پارٹی کو بحیثیت مجموعی منتخب کیا تھا اور اکھیلیش یادو بھی پارٹی کا ایک مقبول عام چہرہ ہیں۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران انہوںنے ریاست میں حالات کو بدلنے کی اپنے طور پر کوشش ضرور کی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی نتائج توقعات کے مطابق برآمد نہیں ہوئے ہیں اور ایک طویل سفر باقی ہے ۔ ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کی کچھ کوتاہیاں رہی ہیں لیکن پارٹی میں اختلافات حکومت کیلئے بھی حالات مشکل کرتے جا رہے ہیں اور اب یہ اختلافات جس مقام پر پہونچ گئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ پارٹی میں پھوٹ پڑ چکی ہے ۔ پھوٹ کا اعلان باقی ہے اور یہ اندیشے سر ابھار رہے ہیں کہ کسی بھی وقت پارٹی دو گروپس میں بٹ جائیگی ۔
پارٹی میںصورتحال یہ ہے کہ امر سنگھ اور ان کے جیسے قائدین نے پارٹی قائدین اورکیڈر کو دو گروپس میں تقسیم کردیا ہے ۔ کوئی پارٹی کا راست کارکن نہیں رہ گیا ہے بلکہ کچھ قائدین ملائم سنگھ یادو کے حامی بن گئے ہیں تو کچھ قائدین خود کو چیف منسٹر اکھیلیش سنگھ کا حامی قرار دیتے ہیں۔ ان دونوں باپ بیٹوں کے درمیان رشتہ کے دو بھائی شیوپال یادو اور رام گوپال یادو کے اختلافات الگ سے پارٹی کو نقصان پہونچا رہے ہیں۔ اکھیلیش کو رام گوپال یادو کی تائید حاصل ہے تو شیوپال یادو اپنے بھائی ملائم سنگھ یادو کی تائید کرتے ہیں۔ پارٹی کے نچلی سطح کے قائدین شش و پنچ میں مبتلا ہیں کہ وہ آخر کس کی تائید کریں۔ کس کے ساتھ جائیں۔ ایک پارٹی کا سربراہ ہے تو دوسرا ریاست کا چیف منسٹر ہے ۔ ہر کسی کی اپنی جگہ مسلمہ حیثیت اور اہمیت ہے ۔ ایک کے پاس زبردست سیاسی تجربہ ہے تو دوسرا اقتدار کے ساتھ کچھ کرنے کا جذبہ رکھتا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تجربہ اور جذبہ کے حقیقی امتزاج کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے اور یہی صورتحال ایسی ہے جس نے پارٹی کیلئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ سب سے زیادہ مشکل اسی وجہ سے ہو رہی ہے کہ یہ اختلافات ایسے وقت شدت اختیار کرگئے ہیں جبکہ ریاست میں اسمبلی انتخابات کا بگل کسی بھی وقت بج سکتا ہے اور ایسے میں پارٹی پھوٹ کا شکار بھی ہوسکتی ہے ۔ والد اپنے تجربہ کی اساس پر کام کرنا چاہتے ہیں تو بیٹے جوانی کے جوش میں دوسروں کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں۔
اب جبکہ ملائم سنگھ یادو نے اکھیلیش یادو کو نوٹس وجہ نمائی جاری کردی ہے تو یہ اندیشے اور بھی تقویت پاگئے ہیں کہ پارٹی میں عملا پھوٹ یقینی ہوگئی ہے ۔ یہ پھوٹ پارٹی کو اقتدار سے بیدخل تو کریگی ہی لیکن ساتھ ہی پارٹی کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہو جائیگی ۔ یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ پارٹی اقتدار سے محروم ہوکر ریاست میں مسلمہ اپوزیشن کی حیثیت بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے گی ۔ملائم سنگھ یادو نے ہفتے کو پارٹی سینئر قائدین کا ایک اجلاس طلب کیا ہے اور اس کے بعد حالات کیا ہوسکتے ہیں یہ کوئی کہہ نہیں پائیگا ۔ حالانکہ اب حالات بڑی حد تک قابو سے باہر ہوگئے ہیں لیکن یہ سیاست ہے اس میں تاخیر سے ہی صحیح اگر حالات کو قابو میں کرلیا گیا تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ پارٹی اپنی پوری کوشش کے بعد ریاست میں اپنی ساکھ اور ایک اہم جماعت کی حیثیت سے شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔ اگر حالات قابو میں نہیں آئے تو پھر جو حالات ہونگے اس کیلئے خود پارٹی اور اس کے قائدین ہی ذمہ دار ہونگے ۔