سلمان خان کو سزا

برسوں چلے قتیل زمانے کے ساتھ ہم…!
واقف ہوئے نہ پھر بھی زمانے کی چال سے
سلمان خان کو سزا
بالی ووڈ کے دبنگ خان سلمان خان کو ہرن کے شکار کے مقدمہ میں خاطی قرار دیتے ہوئے پانچ سال کی سزا سنادی گئی ہے ۔ وہ اب جودھپور جیل میں ہیں اور امکان ہے کہ جمعہ کو ان کی سزا کے خلاف اپیل اور ضمانت کی درخواست دائر کی جائے گی ۔ یہ مقدمہ تقریباً دو دہے قدیم ہے اور اس مقدمہ میں سلمان خان واحد ملزم نہیں تھے ۔ ان کے ساتھ ایک اور بالی ووڈ اداکار سیف علی خان ‘ اداکارہ سونالی بیندرے اور نیلم بھی ملزم بنائے گئے تھے تاہم ٹرائیل عدالت نے سلمان خان کو ہی تنہا خاطی قرار دیا ہے اور دیگر ساتھی اداکاروں کو اس مقدمہ میں با عزت بری کردیا گیا ہے ۔ جودھپور ضلع پریسائیڈنگ جج نے اس ہائی پروفائیل مقدمہ کا فیصلہ سنایا ۔ اس وقت تمام ملزمین عدالت میں موجود تھے ۔ سلمان خان کے وکلا اس فیصلے کے فوری بعد حرکت میں آگئے ہیں۔ ان کا فوری رد عمل یہی تھا کہ سلمان خان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے اور اس فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کی جائے گی ۔ اس مقدمہ میں جو بھی فیصلہ ہوا ہے وہ دور رس اثرات کا حامل ہوسکتا ہے ۔ ویسے تو ملک میں کئی مقدمات درج ہوتے ہیں اور عدالتوں تک بھی پہونچ جاتے ہیں لیکن عدالتوں میں وکلا کی توڑ جوڑ اور قانون کے نقائص کا استحصال کرتے ہوئے ملزمین بری ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر یہ تاثر ملک بھر میں عام ہی ہے کہ جو بااثر شخصیتیں ہوتی ہیں انہیں عدالتوں سے براء ت حاصل کرنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوتی اور طبقہ اولی جو ہے وہ قانون کی گرفت سے بچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے اداکار سلمان خان وزیراعظم نریندر مودی سے قریبی تعلقات بنانے میں لگے ہوئے تھے ۔ ایک دو موقعوں پر انہوں نے نریندر مودی سے ملاقات بھی کی تھی ۔ یہ ملاقاتیں بھی ایسے وقت میں ہوئی تھیں کہ ان کی سیاسی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ ان ملاقاتوں کو دیکھتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سلمان خان عدالتی کشاکش اور قانون کی گرفت سے بچنے سیاسی سرپرستی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم اب عدالت کے فیصلے سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ سیاسی اقتدار سیاسی اثر و رسوخ کے باوجود قانون کی گرفت سے بچنا بااثر افراد کیلئے بھی بسا اوقات آسان نہیں رہ جاتا ۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ۔ یہاں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا ۔
قانون کے مطابق ہر قانون شکن کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ تاہم بااثر شخصیتیں قانون سے کھلواڑ کرنے میں اکثر موقعوں پر کامیاب ہوجاتی تھیں ۔ جہاں تک سلمان خان کے مقدمہ کا سوال ہے اس میں قانونی داؤ پیچ میں گئے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک ہی مقدمہ میں الگ الگ ملزمین کے خلاف الگ الگ رائے قائم کی گئی ہے ۔ جہاںساتھی اداکاروں کو الزامات منسوبہ سے بری کردیا گیا ہے وہیں سلمان خان کو خاطی قرار دیتے ہوئے سزا سنائی گئی ہے ۔ ان پر دس ہزار روپئے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے ۔ مقدمہ کے اور بھی کچھ پہلو ایسے ہیں جن کا سلمان کی قانونی ٹیم جائزہ لے رہی ہے اور وہ اعلان کرچکی ہے کہ سزا کے خلاف اپیل کی جائے گی اور اداکار کی ضمانت کیلئے بھی درخواست دائر کی جائے گی ۔ یہ درخواستیں داخل بھی کردی گئی ہیں اور فوری سماعت کی استدعا کی گئی تھی جس پر عدالت میں سماعت کل جمعہ کو مقرر کی گئی ہے ۔ ان اپیلوں کا اور پھر اس سارے مقدمہ کا بالآخر کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ دو دہوں سے قانونی کشاکش کا شکار سلمان خان کو فوری طورپر عدالتوں سے راحت تو مل سکتی ہے لیکن براء ت کیلئے انہیں ایک بار پھر ایک طویل قانونی لڑائی کیلئے خود کو تیار رکھنا ہوگا ۔ سیاسی قربتیں اور مراسم اس معاملہ میں ان کی زیادہ کچھ مدد نہیںکر سکتے ۔ انہیں اپنی جدوجہد کو منطقی انجام کو پہونچانے کیلئے قانون کا سہارا ہی لینا پڑے گا سیاسی سہاروں کی بنیاد پر وہ اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے میں شائد کامیاب نہیں ہو پائیں گے ۔ اس کا انہیں احساس ہونا چاہئے ۔
عدالت کے فیصلے پر فلمی دنیا میں کئی گوشوں سے ردعمل ظاہر کیا جارہا ہے ۔ تقریباً ہر شخص سلمان خان سے اظہار ہمدردی کررہا ہے اور ان کی انسانی بنیادوں پر انجام دی جانے والی خدمات کا تذکرہ کررہا ہے ۔ تاہم قانونی پہلوؤں پر اظہار خیال کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے اور نہ ہی عدالتوں کے فیصلے پر کوئی تبصرے کئے جاسکتے ہیں۔ یہ کام وکلائے صفائی ہی کرسکتے ہیں اور وہ کر بھی رہے ہیں۔ سلمان خان کو سزا سنائے جانے کے جو اثرات ہیں وہ نہ صرف فلمی دنیا تک محدود ہونگے بلکہ اس کے عام سماج پر بھی اثرات ہوسکتے ہیں۔ سماج میں قانون کے تئیں ایک احساس پیدا ہوگا جو یہ واضح کرے گا کہ قانون سب کیلئے یکساں ہونا چاہئے اور اس میں کسی سے امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی ۔ سلمان خان کے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے سیاسی سرپرستی کو ترک کرکے قانونی راستہ اختیار کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے ۔