سلسلہ نقشبندیہ اور تربیت نفس کے آٹھ شرائط

ہماں درانجمن خلوت گزیدن
ز آسیب نشان مندی رمیدن
درآں خلوت کہ چشم جان نگنجد
بجز نظارۂ جاناں نگنجد
(از کلیات باقی )
شاہ نقشبند ، قطب الاقطاب حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند قدس سرہٗ العزیز کاارشاد ہے : ’’ہم فضل والے ہیں ، ہمارے طریقہ میں محرومی نہیں ہے ‘‘۔
طریقہ نقشبندیہ کادارومدار تین چیزوں پر ہے (۱) اتباع سنت (۲) عمل پر عزیمت (۳) اجتناب از بدعت و رخصت ۔ اسی طرح اس سلسلہ میں تین اشغال ہیں (۱) ذکر (۲) مراقبات (۳) رابطۂ شیخ ۔
خواجگانِ نقشبند نے سالکان طریقت کے لئے آٹھ شرائط مقرر کئے ہیں ۔ (۱) ہوش در دم : ( سالک ہر ایک سانس یاد الٰہی میں گزارے ، غفلت کو دخل نہ دے ، ہر ایک سانس میں غیر کی نفی اور حق کااثبا ت کریں ) ۔
(۲) نظر برقدم : سالک چلتے وقت اپنی نظر پاؤں کی پشت پر رہے تاکہ دل پراگندہ نہ ہو غیرحق کی یاد کو پاؤں کے نیچے لائے ۔ تواضع ، حلم ، نرمی اور عاجزی سے راستہ طئے کرے ۔ ہوش در دم سے اندرونی خطرات اور نظر برقدم سے بیرونی خطرات کو دفع کرنا بھی مراد لیاگیا ہے۔
(۳) سفر در وطن : اس سے مراد سالک اپنے نفس میں سیر کرے ۔ صفات ذمیمہ مثلاً حُبِّ جاہ و مال ، عجب و حسد ، بغض و عداوت وغیرہ سے نکل کر صفات حمیدہ ، صبر ، شکر ، توکل ، تسلیم و رضا وغیرہ کی طرف سفر کرے ۔ مشائخ نقشبندیہ نے ’’سیر آفاقی ‘‘ دوردراز مقامات قطع کرنا دشوار ہونے کی بناء ’’سیرالنفسی ‘‘ کے ضمن میں طئے کرنا مناسب خیال کیا ہے ۔
(۴) خلوت درانجمن: ظاہر میں مخلوق کے ساتھ اور باطن میں اﷲ تعالیٰ کے ساتھ رہے ۔ ؎
نہ من گویم کہ ازعالم جدا باش
ولے ہرجا کہ باشی خدا باش
اسی نکتہ کی طرف اردو شاعر نے اشارہ کیاہے ؎
اُسے کنجِ خلوت کی کیا ہے ضرورت
جو محفل کو خلوت سرا جانتا ہو
خلوت در انجمن کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ سالک جب بازار میں جائے تو اس کے دل کا یہ عالم ہو کہ بجز ذکر الٰہی ، اسے کوئی چیز سنائی نہ دے ۔ حضرات مشائخ نقشبندیہ رحمھم اللہ نے چلہ کشی پر اس خلوت کو ترجیح دی ہے ، اس میں ریا کااندیشہ بھی نہیں ہے ۔
مومن کا دل خدا کا عرش ہے ۔
ارشاد الٰہی ہے : ’’جو کچھ زمین میں ہے ہم نے اُس کو زمین کے لئے زینت بنایا ہے تاکہ آزمائیں کہ ازروئے عمل کون اچھا ہے ۔ اس آیت میں اسی خلوت در انجمن کی طرف اشارہ ہے ۔
(۵) یاد کرد : ہر حال میں اور ہر وقت ذکر میں اسطرح مشغول رہنا کہ مرتبہ حضوری حاصل ہوجائے ، خواہ ذکر لسان ہو یا ذکر قلبی ۔
(۶) بازگشت : قرب الٰہی کے سوا کوئی مقصود نہ ہو ۔ ذکر و فکر سے سرور پیدا ہو یا عالم غیب کی کوئی چیز دکھائی دے تو سالک کو چاہئے کہ اس سے دھوکہ نہ کھائے اور اس کو اپنا مقصود نہ سمجھ بیٹھے بلکہ لفظ ’’لا ‘‘ سے ان سب کی نفی کردے ۔ ذات الٰہی کی طرف قدم بڑھائے ۔
(۷) نگہداشت : خطرات و وساوس کو نکالنا کہ نہ ظاہر رہے نہ باطن اور نہ ہی غیر۔
(۸) یادداشت: ( دوام حضور و آگاہی ) ذات الٰہی کے سوا کسی چیز کا شعور نہ رہے تو اس حالت کو فنا کہتے ہیں اور جب اس میں شعور کا شعور بھی باقی نہ رہے تو یہی فناء الفناء اور عین الیقین ہے اور یادداشت فناء الفناء کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔
ایک مفہوم یہ بھی ذکر کیا گیا کہ اپنے ظاہر کو فرائض و سنن کے نور سے منور کرے اور اپنے باطن کو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے مشاہدہ سے روشن کرے ۔ نیز فراغت اور جماعت میں اﷲ تعالیٰ کے ساتھ رہے ۔ ارشاد الٰہی ہے : ’’ایسے آدمی ہیں جن کو تجارت و بیع بھی یاد الٰہی ، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتی‘‘۔ چنانچہ قطب الاقطاب حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند قدس سرہ فرماتے ہیں : میں نے اپنی عمر میں ایک نوجوان کو دیکھا ، میں فخر کرتا تھا کہ کیا ہی اچھا ہوتا جو میں اس جوان کی طرح ہوتا ۔ اس کی یہ کیفیت تھی کہ مینابازار میں ہزار اشرفی کا سودا کررہا تھا ، لیکن ایک پل بھی خدا کی یاد سے غافل نہ تھا ۔
خلوت درانجمن کے مفہوم کو ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے کہ ایک ایسا شخص ہے کہ جس میں یہ عادت ہے کہ ایک ہی وقت میں پانی کا کوزہ سر پر بغیر ہاتھ کا سہارا اُٹھائے رہتا ہے اور پاؤں سے رستہ چلتا ہے ، اور ہاتھ سے کام کرتا رہے اور زبان سے باتیں کرتا ہے اور کانوں سے سنتا ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہے لیکن اس کا دل پانی کے کوزے کی طرف ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ہاتھ سے گر نہ جائے ۔
خلوت درانجمن کے خصوصی معنی میں ذکر کیا گیا کہ روح خدا کا خلیفہ ہے اور اس کی صفات کا عرش ہے ، اس میں طرح طرح کے جنگل اور عجیب و غریب مجلسیں ہیں ، ان کی طرف ہرگز خیال نہ کرے اور اﷲ تعالیٰ کے مشاہدہ سے باز نہ رہے اور مشاہدہ کے عجائب و غرائب میں خوشحال رہے اور روح جوکہ حرم خدا ہے اور مظہر جمال الٰہی ہے حرم سے حریم کی طرف راستہ معلوم کرے اور غیرکو حرم میں داخل ہونے نہ دے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے : مومن کا دل اﷲ کا حرم ہے اور یہ حرام ہے کہ اﷲ کے سواء اس میں کوئی اور آئے ‘‘۔