سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ کا ایک اہم اور نمایاں وصف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دنیا سے بے رغبتی اور زہد و قناعت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا زہد ’’اضطراری‘‘ نہیں تھا بلکہ وہ ’’اختیاری‘‘ تھا۔ فاقہ کشی آپ ﷺ کو غنا و تونگری سے زیادہ پسند تھی۔ اسباب و وسائل کی آپ ﷺ کے پاس کمی نہیں تھی مگر فطری طور پر آپ سادگی پسند تھے۔ جود و سخا، داد و دہش کا یہ عالم تھا کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے ’’نہ‘‘ نہیں سنا گیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے جب بھی کچھ مانگا گیا آپ ﷺ نے کبھی انکار نہیں فرمایا۔ (مسلم)
غزوۂ حنین میں تقریباً چھ ہزار مرد و زن گرفتار ہوئے جو دستور عرب کے مطابق ہمیشہ کے لئے غلام باندی بنائے جاسکتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی قوم کے مطالبہ پر ان تمام کو باعزت رہا فرمادیا۔
سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اگر وقت کی تنگی کی وجہ کچھ مال باقی رہ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بڑا ناگوار رہتا۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک شب میں نے آپ ﷺ کو بستر پر کروٹیں بدلتے دیکھا تو عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا طبیعت ناساز ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نیا حکم ملا ہے؟ ارشاد فرمایا : یہ بات نہیں۔ پھر اپنے تکیے کے نیچے سے تین درہم نکال کر دکھائے اور فرمایا : گزشتہ ر وز کچھ مال آیا تھا اور یہ درہم تقسیم ہونے سے رہ گئے، میں ڈرتا ہوں کہ اس حال میں مجھے خدا کی طرف سے بلاوا نہ آجائے۔ (اعلام النبوۃ، ص :۱۵۵)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے یہ اعلان عام جاری کیا گیا تھا کہ مرنے والے کا ترکہ اس کے وارثوں کو ملے گا اور اس کے قرضہ کی ادائیگی میرے ذمہ رہے گی۔ (البخاری)
ایک دفعہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آیا اور آپ ﷺ کی وجاہت سے مرعوب ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا حوصلہ بڑھانے کے لئے فرمایا ’’میں بادشاہ نہیں، میں تو ایک قریشی عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت (قدیہ) کھاتی تھی‘‘۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی شکم سیر ہوکر کھانا نہیں کھایا اور نہ کبھی اپنے اس حال کی کسی سے شکایت کی۔ فاقہ کرنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو غنا سے زیادہ پسند تھا۔ اگرچہ آپ ﷺ نے تمام رات بھوک کی شدت سے کروٹیں بدلتے ہوئے گزاری ہوتی، پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اگلے دن روزہ رکھنا نہ چھوڑتے۔ اگر آپ ﷺ اللہ سے زمین کے تمام خزانے اور پھل وغیرہ مانگنا چاہتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دے دیئے جاتے (مگر آپ ﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایا) میں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حالت دیکھ کر فرطِ محبت سے رو پڑتی تھی۔ میں اپنا ہاتھ آپﷺ کے شکم مبارک پر پھیرتی اور کہتی : میری جان آپ ﷺ پر قربان ! اگر آپ اتنا مال دینا قبول فرمالیا کریں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جسمانی قوت کو بحال رکھ سکے تو بہتر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے : مجھے مالِ دنیا سے کیا واسطہ؟ میرے اولوالعزم بھائیوں (سابقہ انبیائ) نے اپنے سخت احوال پر بھی صبر کیا۔ پھر وہ اپنے رب کے پاس جا پہنچے جہاں اُنھیں ان اعمال کے بدلے پورا اعزاز و اکرام ملا۔ مجھے حیا آتی ہے کہ میں عیش میں پڑ کر ان سے کم رتبہ میں رہ جاؤں۔ میرے نزدیک سب سے اچھی بات اپنے بھائیوں سے ملنا ہے۔ اس کے کچھ دنوں بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا وصال ہوا۔ (قاضی عیاض : الشفاء ، ص : ۳۶)
کئی کئی مہینے گزر جانے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر میں چولھا گرم نہ ہوتا۔ صرف پانی اور کھجور پر گزارا ہوتا۔ (حوالۂ مذکور)
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک کھجور کی چٹائی (حصیر) پر آرام فرمارہے تھے اور جسم مبارک پر اس چٹائی کے نشانات بہت واضح دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! اگر آپ اجازت دیں تو ہم اس سے زیادہ نرم چیز آپ ﷺ کے نیچے بچھادیا کریں؟ فرمایا ’’مجھے دنیا سے کیا غرض؟ میری مثال تو اس مسافر جیسی ہے جو کسی تپتی ہوئی دوپہر میں ذرا سی دیر سستانے کے لئے کسی سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ جائے اور پھر آرام کرکے چلے جائے۔ (ابن الجوزی، الوفاء ، ۲:۴۷۵)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے سامنے بطحائے مکہ کو سونے کا بناکر پیش کیا گیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’یا اللہ! مجھے یہ (مال و دولت) منظور نہیں۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن کچھ کھانے کو مل جائے اور ایک دن فاقہ رہے تاکہ سیر ہوکر تیری تعریف اور شکر ادا کروں اور بھوکا رہ کر تضرع اختیار کروں اور تجھ سے دعا مانگوں۔ (الوفائ)
خانگی اُمور سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر والوں کا بیان یہ ہے کہ ’’کان یخدم نفسہ‘‘ (البخاری) آپ اپنے کام خود انجام دیاکرتے تھے۔ ایک دوسری روایت میں پیوند لگاتے، دودھ دوہ لیتے، بازار سے سودہ سلف لے آتے، ڈول درست کردیتے، اونٹ کو اپنے ہاتھ سے باندھ دیتے، غلام کے ساتھ ملکر آٹا گوندھ دیتے (البخاری) کوئی جانور بیمار ہوتا تو علاج کے طور پر داغ دیتے (مسلم) کوئی چیز مرمت طلب ہوتی تو اس کی مرمت کردیتے۔ دوران سفر اگر صحابہ رضی اللہ عنہم کام بانٹنا چاہتے تو آپ ﷺ بھی معاونت فرماتے۔ دوسروں کے کام کرتے، مہمانوں کی خود خدمت گزاری کرتے، صحابی کے شریک جہاد ہونے کی بناء پر گھر میں کوئی ذمہ دار فرد نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود جاکر ان کے جانوروں کا دودھ دوہ دیتے۔ملک و ملکوت کے تاجور ہیں، زمین و آسمان، بحر و بر پر جن کی حکمرانی ہے لیکن عملی زندگی میں اس قدر سادگی بے مثل و بے مثال ہے۔