سعودی ولیعہد اور جی 20 کانفرنس

لاو تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
سعودی ولیعہد اور جی 20 کانفرنس
ارجنٹا کے دارالحکومت بوئنس آئرس میں دنیا کے 20 صنعتی ترقی یافتہ ممالک کی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا ۔ یہ کانفرنس حالانکہ ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے اور اس دوران عالمی قائدین باہمی اور علاقائی و عالمی اہمیت کے حامل مختلف امور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ سابقہ منصوبوں کی پیشرفت کا جائزہ لیا جاتا ہے اور آئندہ کیلئے نئے منصوبے تیار کئے جاتے ہیں۔ تاہم اس بار کی کانفرنس کو ایک الگ وجہ سے اہمیت حاصل رہی ہے ۔ یہ اہمیت سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے ۔ اس کانفرنس میں حالانکہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ ‘ روسی وزیر اعظم ولادیمیر پوٹن ‘ چین کے صدر ژی جن پنگ وغیرہ نے بھی شرکت کی لیکن عالمی میڈیا کی زیادہ ترتوجہ محمد بن سلمان پر رہی ہے کیونکہ وہ حالیہ عرصہ میں ایک ایسے تنازعہ کی وجہ سے سرخیوں میں رہے ہیں جہاں ایک صحافی کا قتل کردیا گیا تھا ۔ صحافی جمال خشوگی کو استنبول میں واقع سعودی سفارتخانہ میں قتل کردیا گیا تھا اور ان کی نعش کو بھی ٹھکانے لگادیا گیا تھا ۔ اس قتل کیس میںمحمد بن سلمان کے رول کے تعلق سے کئی شبہات ظاہر کئے جارہے تھے اور امریکہ نے دعوی کیا ہے کہ اس کی تحقیقات میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ اس قتل میں راست یا بالواسطہ طور پر محمد بن سلمان کا رول ضرور رہا ہے ۔ اس سارے واقعہ نے ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب کیلئے بھی حالات کو قدرے مختلف کردیا ہے اور اس کا احساس محمد بن سلمان کو بھی ہونے لگا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جی 20 کانفرنس میں محمد بن سلمان اور سارے سعودی وفد نے سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا ہے ۔ اکثر و بیشتر عالمی اور اہمیت کے حامل اجلاسوں اور کانفرنسوں میں سعودی وزرا اور دیگر حکام شرکت ضرور کرتے ہیں لیکن یہ زیادہ میڈیا کی توجہ سے دور رہنے کوپسند کرتے ہیں لیکن اس کانفرنس میں محمد بن سلمان اور دیگر سعودی مندوبین نے میڈیا سے بچنے یا دور رہنے کی کوشش نہیں کی ہے اور انہوں نے اس کانفرنس کے ذریعہ بین الاقوامی سطح پر اپنے وجود اور سرگرم رہنے کے احساس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ حالیہ تنازعہ سے خود کو باہر نکالنے کی ایک کوشش کہی جاسکتی ہے جو کچھ حد تک کارگر بھی ثابت ہوئی ہے ۔
جی 20 کانفرنس میں سعودی ولیعہد نے کئی اہم قائدین سے ملاقاتیں کی ہیں۔خاص طور پر ولادیمیر پوٹین کے ساتھ ان کی ملاقات انتہائی گرمجوشانہ رہی ہے ۔ پوری گرمجوشی کے ساتھ دونوں نے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا ‘ ایک دوسرے سے تپاک سے ملاقات کی اور باہمی امور پر تبادلہ خیال بھی کیا ہے ۔ اسی طرح ژی جن پنگ کے ساتھ ان کی ملاقات بھی گرمجوشانہ رہی ہے ۔ پوٹین اور ژی جن پنگ نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت پر تبادلہ خیال کیا ۔ باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور خاص طور پر معاشی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے تعلق سے بات چیت ہوئی ہے ۔ ان دونوںکے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی ولیعہد محمد بن سلمان کی ملاقات انتہائی گرمجوشانہ رہی ۔ دونوں قائدین نے باہمی تعلقات پر بات چیت بھی کی ہے اور دیرینہ روابط کا بھی تذکرہ کیا ہے ۔ ان ساری باتوں کے درمیان ایک خاص پہلو یہ ہے کہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ محمد بن سلمان کی کوئی علیحدہ ملاقات نہیں ہوئی ہے ۔ کانفرنس کے دوران حالانکہ دونوں قائدین نے ایک دوسرے سے مصافحہ ضرور کیا لیکن یہ واضح دکھائی دے رہا تھا کہ ٹرمپ ‘ سلمان کے ساتھ ملاقات کے دوران فاصلہ برقرار رکھنے کو زیادہ ترجیح دے رہے تھے ۔ یہی وجہ رہی ہے کہ امریکہ نے محمد بن سلمان اور ٹرمپ کے مابین باہمی ملاقات کو عملی شکل دینے سے پوری طرح گریز کیا ہے ۔
ٹرمپ پر امریکہ میں ریپبلیکن اور ڈیموکریٹس دونوں جماعتوں سے دباو ہے کہ وہ شہزادہ محمد بن سلمان کے معاملہ میں قدرے سخت موقف اختیار کریں۔ تاہم جہاں تک امریکہ کے سعودی عرب کے ساتھ معاشی مفادات کا سوال ہے اس کو دیکھتے ہوئے ٹرمپ اس معاملہ میں پس و پیش کا شکار ہیں۔ علاوہ ازیں اگر پوٹین اور بن سلمان کی دوستی مستحکم ہوتی ہے تب بھی امریکہ کے مفادات متاثر ہونگے ۔ اس صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹرمپ محمد بن سلمان کے ساتھ تعلقات کو نہ پوری طرح نظر انداز کرسکتے ہیں اور نہ ہی روایتی انداز میں اس میں گرمجوشی پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف محمد بن سلمان نے خود کو خشوگی قتل معاملہ کے اثر سے باہر نکالنے اور آگے بڑھنے کے مقصد سے اس کانفرنس کا پوری طرح سے استعمال کیا ہے اور اس سے امریکہ کو بھی انہوں نے ایک واضح پیام دینے کی کوشش کی ہے ۔