سعودی عرب پر میزائیلس حملے

خود ہمیں اپنی وفائیں آزمانا چاہئے
بے وفائی بھی مسلسل امتحاں کی بات ہے
سعودی عرب پر میزائیلس حملے
ایران کے پاسداران انقلاب نے یمن میں حوثی باغیوں کو بالسٹک میزائیلس کی فراہمی سے متعلق سعودی عرب کے الزامات کو مسترد کردیا ۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی کشیدگی نے اس خطہ میں ایک مذموم صورتحال پیدا کردی ہے ۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں حوثی میزائیلس حملے کے بعد حکومت سعودی عرب کے زیر قیادت فوجی اتحاد نے ایران کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکی بھی دی ہے ۔ سعودی عرب کو نشانہ بنائے جانے کی خبریں اس سے قبل بھی سامنے آچکی ہیں ۔ سعودی عرب پر یمنی باغیوں کو میزائیلس سربراہ کرنے کے پس پردہ واقعات کے حوالے سے حکومت سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے ایران کو انتباہ بھی دیا ہے ۔ اس طرح کے تازہ واقعات کے بعد یہ واضح ہوتا ہے اس خطہ میں کشیدگی میں اضافہ کے ذریعہ خطرناک حالات پیدا کرنے کی سازش کی جائے گی ۔ ریاض میں اتوار کی شب کئے گئے حملے عرب اتحاد کے لیے چیلنج بن گئے ہیں ۔ حوثی باغیوں نے ریاض پر 3 میزائیلس داغے جب کہ جنوبی شہروں خمیس ، شیبط اور جیزان اور نجران پر 4 میزائل داغے جانے کے بعد حوثی باغیوں کا مقصد صاف ہوگیا کہ سعودی عرب کی آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ تمام میزائیل گنجان آبادی والے علاقوں میں جاگرے ۔ ایک میزائیل حملے میں مصر کا شہری ہلاک ہوگیا ۔ اس خطہ میں جنگ کی آگ کو مزید بھڑکانے والی کارروائیوں سے سعودی عرب اور اطراف و اکناف علاقوں میں تشویشناک صورتحال رونما ہوسکتی ہے ۔ یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے شامل ہونے کے بعد ریاض میں یہ پہلی ہلاکت تھی ۔ اس کو حکومت نے سنجیدگی سے لیا ہے تو آگے چل کر اس طرح کے جانی حملوں کو روکنے کے لیے موثر اینٹی بالسٹک میزائیل تیاریاں کرنے کی فکر سے زیادہ امن کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ حوثیوں کے ترجمان کا ادعا ہے کہ ان سے حوثی باغیوں نے یمن میں بمباری کر کے یمنی عوام کو بری طرح نقصان پہونچانے اور انہیں غذا ، پانی اور آزادی سے محروم کردینے کے لیے سعودی عرب نے جو کارروائیاں کی ہیں یہ میزائیلس انہی کا جواب ہیں ۔ حوثیوں کے ترجمان کا یہ بیان واضح جنگ چھڑ جانے کے اندیشہ کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ سعودی عرب کو میزائیل حملے سے نشانہ بنانے کے بعد عالمی قائدین نے اپنی برہمی کا اظہار کیا اور اس حرکت کی مذمت کی ہے ۔ ریاض میں پیر کے دن سعودی عرب زیر قیادت اتحاد نے میزائیلس کے ملبہ کا جائزہ لے کر یہ بتایا کہ ان میزائیلس کو ایران نے سربراہ کیا ہے ۔ اس اتحاد نے ایران کے خلاف اپنی جوابی کارروائیوں کے حق کو محفوظ رکھتے ہوئے صرف اتنا کہا تھا کہ اب ایران کو جواب دینے کا صحیح وقت آگیا ہے ۔ اقوام متحدہ اور امریکہ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس طرح کے واقعات کو فوری روکدینے پر زور دیا ۔ ایران پر اٹھنے والی انگلیوں کے درمیان عرب لیگ متحدہ عرب امارات ، بحرین ، کوویت ، اردن ، پاکستان ، روس ، اٹلی ، الجیریا اور سوڈان نے بھی حوثی باغیوں کے میزائیلس حملوں کی مذمت تو کی ہے مگر اس خطہ میں جنگ بھڑکانے والے واقعات کو روکنے کے لیے ان اتحادی ممالک کو صبر و تحمل کا مظاہرہ بھی کرنا ضروری ہے ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹینوگویٹریس نے حوثی باغیوں کی کارروائی کی شدید مذمت کے ساتھ شہریوں کو نشانہ بنانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ اس کے ساتھ اقوام متحدہ کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس خطہ میں امن کی بحالی کے لیے موثر اقدامات کرنے سیاسی مذاکرات کو ترغیب دی جائے اور یمن میں جاری جنگ کو فوری ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھایا جائے ۔ سب سے پہلے سعودی عرب پر حوثی میزائیلس حملے روکنے کے لیے حوثی باغیوں کو پابند کرنے کی ضرورت ہے ۔ شہری علاقوں کو نشانہ بنانا ایک خطرناک کارروائی ہے ۔ سعودی عرب کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے اتحادی ممالک کو حوثیوں کے بشمول تمام فریقوں کو باہم بات چیت کی میز پر لانا اب اشد ضروری ہوگیا ہے ۔ سعودی عرب کی سلامتی اور اس کے استحکام کو کسی قسم کا نقصان پہونچائے جانے کی کوشش سے سارے خطہ میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوگی ۔ اگر ایران پر عائد کئے جانے والے الزامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جارہا ہے کہ ایران نے اس خطہ کو غیر مستحکم کرنے اور درپردہ جنگوں کے ذریعہ توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ اپنے غلبہ اور دبدبے کو بڑھانے کی کوشش کی ہے ۔ اس سلسلہ میں حوثیوں کو ہتھیاروں سے آراستہ کیا جارہا ہے ۔ ان تمام الزامات اور واقعات کی روشنی میں عالمی انسانی حقوق گروپ کے ساتھ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو خطہ میں کسی بھی ناعاقبت اندیشانہ کارروائیوں کے رونما ہونے سے قبل امن بات چیت کی کوشش کرنے میں اہم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ حوثیوں کو مسلح کرنے میں ایران کی درپردہ سازشوں کے الزامات کو غیر درست بتانے والے ایران کے پاسداران انقلاب کو اپنی صفائی میں امن اقدامات کی جانب پیشرفت کرنی چاہئے ۔