سعودی عرب میں حملے

فصلِ نو تلخ نہ ہوگی تو بھلا کیا ہوگی
زہر کے بیج اگر بوئیں گے بونے والے
سعودی عرب میں حملے
سعودی عرب میں حالیہ مہینوں کے دوران بم دھماکے، اموات اور مساجد کو نشانہ بنانے کے واقعات تشویشناک ہیں۔ سعودی عرب کے مشرقی حصے میں جہاں تیل کے ذخائر زیادہ ہیں، دھماکوں کے واقعات حکمراں طبقہ کیلئے غور طلب ہونا چاہئے۔ تیل کے ذخائر والے سعودی مشرقی علاقوں میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی جانب سے پہلے بھی نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ جمعہ کو ایک اور مسجد پر حملے میں 3 افراد کی ہلاکت اور بم بردار کے زخمی ہونے کی خبریں ان حالات کی سنگینی کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ سعودی عرب کو پہلے سے زیادہ چوکس اور چوکنا ہونا چاہئے چونکہ اب تک جو بھی دھماکے ہوئے ہیں ان علاقوں میں تیل ذخائر کی کمپنیاں ہیں۔ جمعہ کے دن محاسن علاقہ میں جہاں حملہ کیا گیا وہاں بھی دنیا کی سب سے بڑی تیل کی کمپنی سعودی عربین آئیل کمپنی قائم ہے۔ اس سے قبل اگست میں بھی یمنی سرحد کے قریبی علاقہ میں خودکش حملے میں 13 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ گذشتہ سال مئی میں بھی دو مساجد پر حملے کئے گئے تھے بعض حملوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔ اس دہشت گرد تنطیم کے عزائم میں سعودی عرب میں فرقہ وارانہ تنازعات کو ہوا دینا بھی شامل ہے تو شاہی حکمراں کیلئے یہ تنظیم مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ 3 جون 2015ء کو دمام میں خودکش حملہ کے بعد اگرچیکہ شاہ سلمان نے سیکوریٹی کو سخت چوکسی کی ہدایت دی تھی۔ اس کے باوجود یہاں کی صورتحال گہری توجہ کے متقاضی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں خطہ واری تنازعات اپنی جگہ ہیں لیکن عالمی سطح پر سعودی عرب کو بہت اہم رول ادا کرنے ہیں۔ شاید سعودی حکمرانوں نے ان دہشت گرد حملوں کی پیچیدگیوں کو محسوس نہیں کیا ہے۔ دراصل یہ واقعات سلسلہ وار تجزیہ کرنے اور مؤثر اقدامات کرنے کا انتباہ دے رہے ہیں۔ آج جہاں مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک گڑبڑ زدہ ملکوں میں تبدیل ہوگئے بدامنی، خون ریزی، خانہ جنگی  ان کا مقدر بن چکا ہے۔ شام سے لاکھوں افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ایسے میں سعودی عرب بھی اپنے موقف کے بارے میں تصوراتی جائزہ لے تو اسے سنبھل جانے اور احتیاط پسندی کے ساتھ سیکوریٹی اقدامات کرنے کی ترکیب پر غور کرنے کی ضرورت محسوس ہوگی بلاشبہ سعودی عرب ساری دنیا بلکہ عالم اسلام کے طاقتور ممالک میں سے ایک سرفہرست ملک ہے لیکن اسے آنے والے حالات کی خرابیوں اور نقصانات کا پیشگی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگرچیکہ سعودی عرب نے 1973 کے بعد سے اپنی حقیقی پالیسی اور حکمت عملی اختیار کی ہے اس کے باوجود اس تیل کی دولت سے مالامال ملک کو اس خطہ کے دیگر ملکوں کے ماضی اور ان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لے کر اپنے بارے میں مؤثر تدابیر بنانے ہوں گے۔ یہ ساری دنیا جانتی ہیکہ انور سادات کی مصری فوج کو اسرائیل کی فوج کے سامنے ہتھیار کس طرح ڈالنے پڑے تھے۔ بعدازاں مصر کی کمزور حکمت عملی کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ عرب جنگ میں ناکامی ہوئی تھی اور شام کو بھی اسرائیل کے ساتھ تصادم میں نقصان ہوا تھا لیکن ان ملکوں کو اپنی تیل کی دولت پر بہت زیادہ غرور تھا۔ فوجی حکمت عملی اور اسرائیلی فوج کی طاقت کے سامنے عرب ملکوں کے تیل کی دولت کچھ کام نہیں آ سکی تھی۔ تیل رکھنے کے باوجود اگر بدامنی کے حالات پیدا ہوں تو وہی ملک شدید متاثر ہوں گے جن کے تیل کی فروخت مسدود ہوگی۔ گڑبڑ والے علاقوں سے تیل کی سربراہی متاثر ہوگی۔ تیل کی پیداوار روک دی جائے یا اس کی فروخت بند ہوجائے تو عرب ملکوں کا مستقبل بڑی طاقتوں کے فیصلوں پر ہی منحصر ہوگا۔ سعودی عرب کا بھی یہی حال ہوسکتا ہے کیونکہ سعودی عرب کے تیل کا سب سے بڑا خریدار امریکہ ہے اور سعودی عرب کے تیل ذخائر پر امریکی کمپنیوں کا ہی کنٹرول ہے۔ ایسے میں اگر سعودی عرب میں دہشت گرد تنظیم سر ابھار رہی ہے تو یہ خطرہ کی علامت ہے۔ سعودی عرب اور اس کے حلیف ملکوں کے آنے والے حالات کا پیشگی اندازہ کرتے ہوئے حفاظتی پالیسیاں وضع کرنے ہوں گے۔ بلاشبہ سعودی عرب نے گذشتہ برسوں شروع ہونے والی عرب تحریکوں جیسے مصر، تیونس، لیبیا اور شام کے حالات کو دیکھ کر ہی اپنی سیکوریٹی کو مضبوط بنا لیا تھا مگر اس وقت سعودی عرب کے اندر دہشت گردی کے واقعات امن کے لئے خطرہ پیدا کررہے ہیں۔ لہٰذا عرب خطہ میں تمام ملکوں کے درمیان دوستی اور خوشگوار تعلقات کے علاوہ ایران و دیگر اقوام کے ساتھ پائی جانے والی کشیدگی کو ختم کرنے میں ہی مستقبل کی بہتر حکمت عملی سمجھی جائے گی ورنہ کشیدہ تعلقات اور مغرب کی چالاکیوں کی وجہ سے رونما ہونے والے حالات سعودی عرب اور اس کے حلیف ملکوں کیلئے مناسب نہیں ہوں گے۔
ہندوستان میں حقوق انسانی کی کیفیت ابتر
مسلمانوں ے ساتھ امتیازی سلوک، سماجی عدم مساوات، تعصب پسندی، نفرت اور عدم رواداری کے بڑھتے واقعات کے درمیان عالمی انسانی حقوق تنظیم ہیومن رائیٹس واچ کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہیکہ حکومت ہند مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ یوپی کے ٹاؤن دادری میں مسلم شخص کو گوشت کے مسئلہ پر قتل کرنے کا واقعہ اس وقت ساری دنیا میں موضوع بحث بن گیا ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ مزید سنگین صورت اس وقت اختیار کر گیا جب مرکز میں بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے۔ مسلم دشمنی میں سب سے آگے تنظیموں کو کھلی چھوٹ دینے کی وجہ سے ہندوستان کی قدیم روایت کو نقصان پہنچایا جانے لگا۔ برسراقتدار حکمراں پارٹیوں نے مسلم شہریوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جیسا کہ صدرجمہوریہ پرنب مکرجی نے اپنی سوانح حیات میں ہندوستان کی نام نہاد سیکولر پارٹی کانگریس اور اس کے سابق وزرائے اعظم کی خرابیوں کی نشاندہی کرکے دنیا والوں کو یہ بتا دیا کہ کسی بھی ملک میں امن کی برقراری اور بدامنی دونوں کی ذمہ داری حکمراں طبقہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ سابق وزیراعظم راجیو گاندھی یا سابق وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ نے جو غلطیاں کی تھیں اسی کا تسلسل ہے کہ آج ہندوستان میں انسانی حقوق کا تحفظ نہیں ہورہا ہے۔ ساری دنیا میں اس حوالے سے ہندوستان کا نام لیا جارہا ہے کہ یہاں مسلم اقلیت کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ مسلم طبقہ پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے بجائے حکمراں طبقہ مسلمانوں پر تشدد کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی گئی ہے۔ جو لوگ خاطی پائے گئے ہیں ان کو الزامات منسوبہ سے بری کرواکر آزاد کردیا جارہا ہے۔ یہ ایسے واقعات ہیں جن کا نوٹ لے کر عالمی انسانی حقوق تنظیم نے ہندوستان کے  اندر انسانی حقوق کے تحفظ میں بدترین ناکامی کی نشاندہی کی ہے۔ یہ رپورٹ موجودہ حکومت کے منہ پر زبردست طمانچہ ہے۔