سعودی عرب میں اعتدال پسند اسلام پر عمل آوری : شیخ عبداللطیف

’’شرعی قوانین کے نفاذ میں زبردستی نہیں، اسلام میں جبر ممنوع، سعودی خواتین بخوشی پردہ کی پابند‘‘
جدہ 31 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) سعودی عرب میں اخلاقی پولیس کے فرائض انجام دینے والے محکمہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر المعروف مذہبی پولیس کے سربراہ شیخ عبداللطیف الشیخ نے کہا ہے کہ ان کا محکمہ یا حکومت شرعی قانون کو زبردستی نافذ نہِیں کرنا چاہتے، ہم انتہا پسند ہیں نہ موم کی ناک کی طرح نرم بلکہ ہماراطریقہ اعتدال پر مبنی اور راستہ شریعت کا راستہ ہے۔شیخ عبداللطیف الشیخ نے ان خیالات کا اظہار ایک چربی ٹیلی ویژن چیانل کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا ہے۔

مذہبی پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا ” امر بالمعروف و نہی عن المنکر کمیٹی میں کچھ ایسے ارکان بھی ہیں جو زیادہ روایت پسند ہیں اس لیے ان ارکان کی شریعہ کے قانون کے حوالے سے اپروچ زیادہ سخت ہے۔انہوں نے اپنے اور اپنے زیر سربراہی کام کرنے والے محکمے کے بارے میں کہا ” ہم نہ انتہا پسند ہیں اور نہ ہی غیر معمولی طور پر نرم اور لچکدار ہیں، ہم پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے پیروکار ہیں اس لیے جبر کیساتھ کوئی چیز نافذ نہیں کرنا چاہتے ہیں،کہ یہ طریقہ اسلامی شرعیہ کا نہیں ہے۔چیانل کے رپورٹر احمد التووایان کے ساتھ ایک شاپنگ مال کے دورہ کے دوران شیخ عبداللطیف الشیخ ایک ایسی دکان پر گئے جو خواتین کے ملبوسات اور دیگر ضروریات سے متعلق دکان، لیکن اس میں ایک جوان آدمی بھی کام کرتا تھا۔شیخ عبداللطیف الشیخ نے اس آدمی سے کہا

” یہ دکان تو صرف خواتین کے ملبوسات کی ہے اور یہاں صرف خواتین گاہک آتی ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس دکان پر ایک مرد کا ہونا ضروری ہے؟” اس پر اس کا جواب تھا ” سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ خواتین کو اشیاء کی فروخت کیلیے صرف خواتین ہوں۔یخ عبداللطیف الشیخ نے کہا ”یہ قانون کی خلاف ورزی ہے، لیکن ہم نے دکان والوں کو یہ موقع دیا ہے کہ قانون کی پابندی کریں۔” اس لیے ہم یہ نہیں سنتے کہ کمیٹی بہت سخت ہے۔محکمہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے سربراہ نے کہا ”کمیٹی نماز کے اوقات کے دوران کاروبار کے حوالے سے قوانین کو بہتر بنانے کا جائزہ لے رہی ہے، ہماری کوشش ہے کہ اوقات نماز میں کاروبار مختصر وقت کیلئے بند ہو اور جو خلاف ورزی کرے اس سیلزمین کو سزا دی جائے۔” انہوں نے کہا ” کمیٹی کے ارکان اچانک بازاروں اور دکانوں کا معائنہ بھی کر سکتے ہیں

”خواتین کے پبلک مقامات پر آنے جانے سے متعلق انہوں نے کہا ” اس چیلنج کو کمیٹی دیکھنا چاہتی ہے، خواتین کیلیے ممنوع ہے کہ وہ عوامی مقامات پر اپنے چہرے کھولیں، یہ بات شائستگی کے بھی خلاف ہے۔شیخ عبداللطیف الشیخ کا مزید کہنا تھا ” یہ اب کمیٹی پر منحصر ہے کہ عوامی سطح پر شائستگی کیخلاف حرکت کرنے والی خواتین کو قانون کی پابندی پر کیسے مائل کیا جائے۔” شاپنگ مال پر شاپنگ کیلیے آئیں خواتین سے بھی اس موضوع پر بات ہوئی۔ ایک خاتون سے پوچھا گیا کہ ” کیا وہ چہروں کو ڈھانپے بغیر بازاروں میں آنے کے حق میں ہیں؟ ”نہیں کبھی نہیں، میں ایسی سوچ کو مسترد کرتی ہوں۔خاتون کا جواب تھا۔اس بارے میں ایک اور خاتون نے شکایت کی کہ کمیٹی کے بعض ارکان سختی کرتے ہیں۔” چھ ہزار اہلکاروں پر مشتمل مذہبی پولیس کے سربراہ نے ایسے لوگوں پر تنقید کی جو اپنے خاص ایجنڈے کیلیے ملک میں بے چینی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا ایسے بھی کچھ لوگ متحرک ہیں جنہوں نے بظاہر مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، لیکن ان کا اصل ایجنڈا کچھ اور ہے۔انہوںنے کہا حکومت اور ہماری ریاست مضبوط ہے اور ہماری قیادت کو عوام کی حمایت حاصل ہے۔ اس لیے جو لوگ منفی ایجنڈے کا پودا یہاں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا پودا کمزور، اقدار سے عاری اور ختم ہونے والا ہے‘‘۔