سری لنکا میں سیاسی بحران

سری لنکا میں سیاسی بحران
سری لنکا کے سیاسی بحران پر ہندوستان کو محتاط رہنے کی ضرورت ظاہر کی جارہی ہے، کیوں کہ اس سے قبل دیگر ملکوں کے داخلی معاملوں میں ہندوستان کی مداخلت یا بیان بازی سے خارجہ پالیسی پر تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مودی حکومت نے سری لنکا کی پارلیمنٹ کو معطل کرنے پر فوری ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن مہندا راجہ پکسے کو وزیراعظم بنائے جانے کی راہ ہموار ہوتی ہے تو ہندوستان کیلئے نیا بحران پیدا ہوجانے کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔ صدر سری لنکا نے 16 نومبر تک پارلیمنٹ کو معطل کرکے سابق وزیراعظم مہندا راجہ پکسے کو اکثریت حاصل کرنے کا موقع دیا ہے تو وکرما سنگھے کی برطرفی کے پیچھے کارفرما سیاسی ہتھکنڈوں کے بارے میں بہت جلد تنقیدیں اور الزامات کا سلسلہ شروع ہوگا۔ وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے کی برطرفی کی جو بھی وجوہات ہیں، یہ تشویش کا باعث سمجھی جارہی ہیں۔ سری لنکن پارلیمنٹ کے 225 رکنی ایوان میں وکرما سنگھے کی پارٹی یونائٹیڈ نیشنل پارٹی کو 106 نشستیں حاصل تھیں اور اسے قطعی اکثریت کیلئے 7 نشستوں کی کمی تھی لیکن اسے مہندا راجہ پکسے اور صدر Maithripala Sirisena کی پارٹیوں کے مشترکہ ارکان پارلیمنٹ کی تعداد صرف 45 ہے تو وہ ایک اکثریت والی پارٹی کے مقابل اقلیت والی پارٹی کو اقتدار کا موقع فراہم کرکے دستوری بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ صدر سری لنکا کے فیصلہ کو غیردستوری قرار دیا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ کی معطلی سے 2019ء کیلئے بجٹ کی پیشکشی کا عمل بھی تاخیر کا شکار ہوجائے گا اور بجٹ کے بغیر حکومت چلانے اور عوامی مسائل کی یکسوئی کیلئے حکومت کو کئی دشواریاں ہوں گی۔ حکومت تشکیل دینے کیلئے سادہ اکثریت 113 ارکان کی ضرورت ہے۔ اچانک پارلیمنٹ کی معطلی اور نئی حکومت سازی کے لئے مہلت دینے سے سودے بازی کا بازار گرم ہوگا۔ مہندا راجہ پکسے کے تعلق سے ٹاملناڈو کی حکومت سیاسی پارٹیوں اور عوام کو تشویش لاحق ہوگئی ہے، خاص کر ٹاملناڈو کے ماہی گیروں اور ٹاملوں کیلئے راجہ پکسے ناقابل قبول ہیں۔ ٹاملناڈو کی ڈی ایم کے پارٹی نے سری لنکا کے سیاسی بحران کو تشویشناک قرار دیا کیونکہ راتوں رات اقتدار کی تبدیلی کی کوشش کسی لحاظ سے ملک اور اس کے ہمسایوں کے لئے مناسب بات نہیں ہوگی۔ راجہ پکسے کو ٹاملوں کا دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ سری لنکا فوج اور ایل ٹی ٹی ای کے درمیان 2009ء کی لڑائی میں خانہ جنگی کے دوران ٹامل عوام کی ہلاکت کے پیچھے بھی مہندا راجہ پکسے کا ہاتھ ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ صدر سری لنکا کے فیصلے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں، اس سے عوام کو واقف کروائے بغیر آگے بڑھتے ہیں تو سری لنکا کے سیاسی مستقبل کیلئے سنگین مسائل پیدا کرنے والی کارروائی ہوگی۔ سری لنکا میں سیاسی بحران کی کیفیت اگر زیادہ دن تک جاری رہتی ہے تو یہ پڑوسی ملک ہندوستان کے مفادات کیلئے بھی ایک چیلنج ہوں گی۔ یہ بات بھی زیربحث آرہی ہے کہ سری لنکا کے اہم قائدین نے حال ہی میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا، اور ہندوستانی حکومت کے اہم ذمہ داروں سے ملاقات کی تھی۔ اس دورہ کے بعد اگر سری لنکا کو سیاسی بحران کی کھائی میں ڈھکیلا گیا ہے تو اس کے پس پردہ سیاسی سازش کیا ہے، یہ بے نقاب ہونی چاہئے۔ دستوری بغاوت کے ذریعہ اگر کوئی سیاسی طاقت اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کی مدت دیرپا نہیں ہوگی۔ صدر سری لنکا نے جس جلد بازی میں فیصلے کئے ہیں، ان فیصلوں کو قانونی نقطہ نظر سے کوئی اہمیت نہیں سمجھی جارہی ہے۔ دستوری تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر جو کچھ فیصلہ کیا گیا ہے، وہ نہ صرف سری لنکا کے عوام کیلئے بلکہ ساری جمہوریت پسند چند اقوام کیلئے حیرت و تعجب کا باعث ہے اور صدر سری لنکا کا فیصلہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ایک دستوری طور پر برسراقتدار وزیراعظم کو برطرف کرکے ان کی جگہ دوسرے لیڈر کو مقرر کرنا سوائے سیاسی بحران پیدا کرنے کے کچھ نہیں ہے۔ حکومت بدلنے سے کسی قسم کا سیاسی بحران ختم نہیں ہوگا بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ یہ بحران کئی نقصانات کو اپنے ساتھ لے آئے گا۔ رانیل وکرما سنگھے نے اس سال ہی خط اعتماد جیت کر قابل لحاظ اکثریت حاصل کی تھی، اور انہیں پارلیمنٹ کا اعتماد بھی ملا تھا مگر صدر سری لنکا کا اچانک کیا گیا فیصلہ سری لنکا کی سیاست میں ایک بدترین تاریخ رقم کرے گا۔