سرکاری پراجیکٹس و انتخابی مہم

گجرات میں اب اسمبلی انتخابات کیلئے بہت کم وقت رہ گیا ہے ۔ جاریہ سال کے اواخر تک ہی ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نے بالواسطہ طور پر سرکاری مشنری کے استعمال کے ذریعہ ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے ۔ ریاست میں پارٹی کی جانب سے باضابطہ طور پر تو انتخابی مہم کا آغاز نہیں کیا گیا ہے لیکن حکومت اور وزیر اعظم پوری طرح انتخابی مہم کا آغاز کرچکے ہیں۔اس کام کیلئے سرکاری پراجیکٹس کا استعمال کیا جا رہا ہے اور ان پراجیکٹس کا آغاز ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب کسی بھی وقت ریاست میںاسمبلی انتخابات کا شیڈول جاری ہوسکتا ہے ۔ یہ در اصل حکومت کی منصوبہ بندی ہی ہے کہ پہلے اسے تمام سرکاری پراجیکٹس کو انتخابی حربے کے طور پر پیش کرنے کاموقع مل جائے اس کے بعد الیکشن کمیشن سے انتخابات کا شیڈول جاری کروایا جائے ۔ گجرات میں بی جے پی کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اس کیلئے شائد اس بار ریاست میںاقتدار حاصل کرنا آسان نہیں ہو ۔ یہاں کئی عوامل ہیں جو بی جے پی کیلئے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ اور چونکہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست ہے اور یہاں وہ 12 سال تک چیف منسٹر رہ چکے ہیں ایسے میں اگر یہاں پارٹی کو شکست ہوتی ہے یا نقصان ہوتا ہے تو اس کا ملک بھر پر اثر ہوسکتا ہے ۔ اسی لئے شائد بی جے پی اورحکومت اس سلسلہ میں سرگرم ہوگئے ہیں اور وہ کسی بھی قیمت پر ریاست میںانتخابات جیتنا چاہتے ہیں۔ اسی مقصد کے تحت ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اور سرکاری پراجیکٹس کے افتتاح اور ان کو قوم کے نام معنون کرنے کے وقت کا تعین بھی انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے ۔ گذشتہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے جاپان کے وزیر اعظم کو گجرات کا دورہ کروایا ۔ ایسا تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ وزیر اعظم جاپان شینزو ابے کسی سرکاری دورہ پر نہیں بلکہ گجرات اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی انتخابی مہم میںشرکت کیلئے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں آٹھ کیلومیٹر تک روڈ شو میں شریک کیا گیا اور خود وزیر اعظم بھی شریک رہے ۔ اس طرح کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی لیکن بی جے پی وہ ہر کام کر رہی ہے جس کی ماضی میںکوئی مثال موجود نہ ہو ۔

بی جے پی کا واحد ایجنڈہ کسی بھی حال میں اور کسی بھی قیمت پر انخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہی ہے ۔ اس مقصد اور ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے بی جے پی کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی بھی اپنی قومی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے جس ریاست میں انتخابات ہوتے ہیں وہیں کے ہو کے رہ جاتے ہیں۔ اسی ریاست کے دورے کئے جاتے ہیں۔ اسی ریاست کیلئے مختلف اعلانات کئے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان اعلانات پر انتخابات کے بعد عمل نہ کیا جائے لیکن ان کے اعلان کے ذریعہ اسمبلی انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے ۔ ہمارے سامنے بہار کی مثال موجود ہے ۔ بہار میں جب 2015 میں اسمبلی انتخابات ہورہے تھے اور جنتادل یو کا مہا گٹھ بندھن کے ساتھ اتحاد تھا اس وقت نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم کم اور بی جے پی کے کارکن زیادہ بن گئے تھے اور تقریبا ہر روز بہار سے دہلی اور دہلی سے بہار کا سفر کرتے ہوئے انتخابی مہم چلا رہے تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت مہا گٹھ بندھن کے آگے ان کی ایک نہ چل سکی ۔ تاہم اب گجرات میں اسی طرح کی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ۔ جب گذشتہ دنوں وزیر اعظم جاپان کو گجرات کا دورہ کروایا گیا ۔ ان سے روڈ شو کروایا گیا اور پھر مودی نے بلیٹ ٹرین پراجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا ۔ اس پراجیکٹ کی تکمیل کیلئے 2022 کا جو نشانہ رکھا گیا ہے وہ بھی بی جے پی کی سیاسی چال ہی ہے تاکہ ریاست کے عوام کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ بی جے پی اقتدار میں ہی اس پراجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہونچایا جاسکتا ہے ۔

جہاں تک گجرات کے سیاسی ماحول کا تعلق ہے بی جے پی کو کہیں یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہاں اس کا انتخابی سفر آسان نہیں ہوگا ۔ اس کیلئے مشکلات پیش آسکتی ہیں ۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہاں نریندر مودی نہیں ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پارٹی نے تین معیاد حکمرانی کے مکمل کرلئے ہیں۔ تیسری وجہ راجیہ سبھا نشست کیلئے احمد پٹیل کا انتخاب ہے ۔ حالانکہ اس انتخاب کو روکنے کیلئے بی جے پی نے سر دھڑ کی بازی لگادی تھی اور امیت شاہ نے مسلسل یہاں کیمپ کرتے ہوئے ہر ممکن حربے اختیار کئے تھے لیکن وہ ناکام رہے ۔ احمد پٹیل کی اس کامیابی نے بی جے پی کو چاہے کچھ نقصان پہونچایا ہو یا نہ پہونچایا ہو یہ بات طئے ہے کہ اس سے کانگریس کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ یہی بات بی جے پی اور اس کے صدر امیت شاہ کو زیادہ فکرمند کر رہی ہے اور اسی لئے عوام پر اثر انداز ہونے کیلئے سرکاری پراجیکٹس کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔