سردارِ اولیاء سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ الباری

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی ، معلم جامعہ نظامیہ
مالک ذوالجلال ا ﷲرب العزت نے بندوں کی رہبری اور ہدایت کے لئے اپنے احکامات اور ارشادات ِمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مختص فرمایاہے ۔ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام ، صحابہ رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین ،تابعین اور اولیائے عظام رحمہم اﷲیہ تمام کے تمام بندگانِ خدا کو راہِ ہدایت بتلاتے رہے ۔آج کے اس پُرفتن دور میں انسان پر لازم ہے کہ وہ راہِ ہدایت کو تلاش کرتے رہے۔ آج ہمارا دل دنیوی لوگوںسے ، دنیاوی اشیاء سے، دنیاوی اغراض سے ،مال ومتاع سے مانوس ہوچکاہے۔ جبکہ یہ سب فانی ہے جب کہ مانوس تواُن لوگوں سے ہونا چاہیے تھاکہ جن کااوڑھنا بچھونا تقویٰ وطہارت کا ہو۔اب اِس زمانہ میں بزرگانِ دین اور علمائے دینِ متین ہی ایسے ہیں جن کی صحبتوں اور معیتوں سے ہماری زندگی میں انقلاب آئیگا۔ جیساکہ ایک حدیث شریف میں آیاہے جس کا خلاصہ یہاںبیان کیاجاتا ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ توساتھ مت رہ مگر مومن کے ، اورتیرا کھانانہ کھائے مگر متقی اور پرہیزگار۔ (ألحدیث) اس حدیث سے ہمیںیہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمارا ہرکام اﷲ سبحانہ وتعالیٰ اور حبیبِ خدا کی مرضی کے مطابق ہو،اسی طریقہ سے اگرہم بزرگانِ دین سے لگاؤ وُوابستگی قائم رکھیںگے تو یقینا اس کا فائدہ ہمیں ضرور ملے گا۔
اب رہی نبوت کی بات اس کا سلسلہ توختم ہوچکاہے کوئی نبی قیامت تک ہرگز نہیں آئیگا۔ ہاں البتہ ولایت یہ کسبی یعنی محنت سے حاصل کی جانے والی چیز ہے اسکا سلسلہ تاقیامِ قیامت جاری وساری رہیگا۔جو جتنی محنت ومشقت کریگا اتنا ہی وہ بلند مقام پر فائز ہوگا۔ ولایت کا مطلب صرف کرامت دکھلانا ہی نہیں ہے بلکہ تقویٰ وطہارت یعنی اﷲ تعالیٰ اور رسول پاک علیہ السلام کی رضامندی اور خوشنودی طلب کرنے کے لئے اپنی تما م زندگی کو وقف کردینا ہے۔
جیسے ہی ماہِ ربیع الثانی شروع ہوجاتاہے وہ تمام مسلمان جن کے دل میں اولیاء عظام کے متعلق محبت جاگزیں رہتی ہیں وہ ایک ایسے بزرگ کا تذکرہ و واقعات بیان کرتے ہیںجوتمام بزرگانِ دین کے سردار ، قطب الاقطاب ، سردارِاولیائ، قندیل ِلاثانی ،پیرانِ پیر ہیں جنکو ساری دنیا حـضرت سیدنا غوث اعظم دستگیر رحمۃ اﷲعلیہ کے نام سے جانتی ہے حضرت پیرانِ پیر کی زندگی بہت ہی بہتر طریقہ سے گزری ہے ۔ تعظیم ِمصطفی علیہ السلام کو تو اپنا مقصد بنائے ہوئے تھے۔ جیساکہ سیرت نگاروں نے آپ رحمہ اللہ الباری کے متعلق یہ بیان کیا ہے کہ آپ کی ذات میں ادبِ مصطفی تو حددرجہ کا تھا چنانچہ جب کبھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کاذکرکرناہوتاتو سب سے پہلے آپ غسل فرماتے، اپنے آپ کو خوشبوسے معطر کرلیتے ، نیا لباس زیب تن کرتے اور ادب کے ساتھ بیٹھ جاتے اور یہ شعر پڑھتے کہ
ہزار بار بشویم دہن زمشک گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمالِ بے ادبی است
مذکورہ شعرکامطلب یہی بتلایاگیا ہے کہ ائے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں ایک ہزار مرتبہ بھی غسل کرلوں ، اپنے آپ کوبہترین خوشبوسے معطر کرلوں تب بھی آپ کانام نامی اسمِ گرامی لینا اپنے آپ میں سُوء ادبی تصو رکرتاہوں۔ آج ہم سب اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کانام نامی اسمِ گرامی بڑی ہی آسانی کے ساتھ لیتے ہیں، نہ طہارت کاخیال کرتے ،نہ مقام کا ،نہ موقع ومناسبت کا بس نامِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لے لیتے ہیں۔ اِسکا خیال رکھنا ہمارے لئے بے حد ضروری ہے۔
حضرت پیرانِ پیر رحمہ اللہ الباری کے بے حساب کرامات ہیں۔ چنانچہ حضرت شیخ الاسلام عارف باﷲشہزادئہ فاروقِ اعظم امام محمد انواراﷲ فاروقی رحمۃ اﷲعلیہ بانی جامعہ نظامیہ بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی مایہ ناز تصنیف کردہ کتاب مقاصد الاسلام جلدہشتم میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت غوث اعظم دستگیررحمۃ اﷲعلیہ بڑے درجے پر فائز ہیں۔ چنانچہ ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیںکہ جو خالی از دلچسپ نہیں، وہ یہ ہے کہ ایک میرے دوست ہے ان کے ایک لڑکے کی شادی ہوئی اس کے ساتھ ہی دولہا بیمارہوگیا چونکہ لڑکے کے والد خودہی ایک عامل تھے دریافت کیا تو معلوم ہواکہ اس لڑکے پر جِن مسلط ہوگیا آخرکار لوگوں کی نشاندہی پر حضرت میراں داتار قدس سرہ کی خدمت میں بیمار کے ساتھ حاضرہوئے جن کامزار گجرات کے ایک صوبہ میں واقع ہے ، جب وقت مقررہ پر مزار کے قریب بیمار بغرض علاج لایاگیا تو اس پر بیہوشی طاری ہوئی اور تھوڑی دیرکے بعد وہ کہنے لگاکہ : تم نے مجھے بلاکرقیدکردیا اگرمجھے معلوم ہوتاکہ اس بیمارکے واسطے بلاتے ہوتے تو میںکبھی نہ آتا! بیمار کی حالت اوردیکھنے کی ہیئت گواہی دے رہی ہے تھی کہ وہ صاحب قبر کودیکھ رہاہے اور خاص ان سے سوال وجواب کررہاہے ، الغرض جِن یہ کہنے لگاکہ میں جومسلط ہواہوں اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے میں نے ان سے کئی بار مختلف طریقوں سے کہدیاتھا کہ اِس لڑکی سے نکاح مت کرو مگرانہوں نے نہیں مانا،بالآخر میں نے اس کی اطلاع میرمحمود صاحب (ان کامزارحیدرآباد کے مغرب میں ایک پہاڑی پر واقع ہے جو اِس وقت میرمحمود کی پہاڑی کے نام سے مشہور ہے) کودیدیا جس خاندان کی یہ لڑکی ہے وہ لوگ میرا حق اداکیاکرتے تھے ، یعنی نرسو کے نام پرکچھ نکالتے تھے۔ مختصراً یہ کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جس کے یہ ارکان ہوں، جن میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اﷲمیرمجلس ہو اور اراکین میں حضرت باباشرف الدین صاحب برہماوی، حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی ، حضرت ابوسعید بغدادی ، حضرت باباشرف الدین صاحب (جن کامزار حیدرآباد کے جنوب میں پہاڑی پرواقع ہے) بھی شریک ہوں ۔ وہ جِن ان تمام اولیاء کے کہنے کے بعد بھی نہ مانا اوریہ بھی کہاگیا تھا کہ بیمار کو نہ ستایا جائے تو اُس جِن نے یہ بات بھی نہ مانااور کہنے لگاکہ میں کمیٹی کے ارکان کے حکم سے راضی نہیں ہوں شہنشاہ کے پاس اس کامقدمہ پیش کیا جائے ۔ چنانچہ بغداد شریف کو روانہ کردیا گیا اور مجلس برخاست کردی گئی ۔ جب دوبارہ اجلاس ہواتو حضرت غوث الثقلین رحمۃاﷲعلیہ کافرمان صادر ہوا جس میں یہ حکم تھا کہ : تو کیا سمجھتاہے اگر میں چاہوں تو تجھے جلاکر خاک ِسیاہ کردوں، مگر تو نے جب ان کو اطلاع دیا تو معاف کردیا گیا ، مگر ہمارے لوگوں کی شان میں تو نے بے ادبی کیا ہے اس کی پاداش میں یہ سزاء دی جاتی ہے کہ زنجیروںکے ساتھ جکڑکر اجمیر کے ایک پہاڑی علاقہ پر پانچ سال بامشقت محبوس (قید) رکھا جائے اور روشن علی صاحب داروغہء مجلس کوحکم دیاگیا کہ دو دفعہ مشقت لی جائے اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ عائدکیا گیا ۔ اس کے بعد بیڑیاں ، ہتکڑیاںاس جِن کو پہنادی گئیں ۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس بیمار کو ہوش آگیااور بیماری جاتی رہی ۔
(مزیدمعلومات کے لئے مشاہدہ کیجئے، مقاصد الاسلام، جلد ہشتم)
حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ فرماتے ہیںکہ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ حضرت پیران پیر رحمۃ اﷲعلیہ کو اِس وقت بھی وہی سلطنت معنوی حاصل ہے جو زندگی میں تھی۔ جنات کو چونکہ بوجہ لطافت روحانیت سے مناسبت ہے اس لئے وہ اس عالم کے حالات کامشاہدہ کرتے ہیں اور انسان نہیں کرسکتے ۔ مگر حضرت انسان کو بھی ایک ایسی قوت دی گئی ہے کہ اگر اُس میں کمال حاصل کریں تو اس عالَم کے علاوہ ایسی چیزوں کا بھی مشاہدہ کرسکتاہے کہ جس سے ’’جنات‘‘ بھی حیران ہوجائیں۔
یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ جس کسی بھی شخص میں جتنا تقویٰ وطہارت کا ملکہ ہوگا اس کو اتنا ہی تصرف کاحق حاصل ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین