سربراہان مملکت کا فریضۂ منصبی

قرآن پاک جو ہدایت کا منبع نجات و کامرانی کا سرچشمہ ہے۔ احادیث مبارکہ جو کتاب ہدایت کی تشریحات و توضیحات ہیں وہ راست طور پر اس بات کی رہنمائی کرتے ہیں کہ رعایہ کا ایک حاکم اور امیر ہو، امیر و حاکم کا انتخاب انسانی سماج و معاشرہ کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے اس کے بغیر ایک کامیاب معاشرہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا، نظام امارت کے بغیر وجود میں آنے والا یا چلنے والا معاشرہ کوئی صحراء یا جنگل تو ہوسکتا ہے انسانوں کا سماج و معاشرہ نہیں۔اس خصوص میں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ امیر کہتے کسے ہیں اس کی ذمہ داریاں اور فرائض آخر ہوتے کیا ہیں، امارت کا مطلب کیا ہے۔ امیر کہتے ہیں سردار اور حکمران کو اور امارت سرداری اور حکمرانی کو امیر و حاکم دراصل مملکت کا سربراہ ہوتا ہے۔ موجودہ احوال کے تناظر میں جہاں اسلامی حکومت ہو خواہ جمہوری ہو کہ بادشاہی اسلام کے بنیادی قوانین کی حفاظت اور دستوری و اساسی بنیادوں پر اسلامی احکام و قوانین کی نمائندگی اور اس کی محافظت حکومت کے کار پردازوں اور رعایہ کا اس پر عمل، حکومت و سلطنت کا عمدہ نظم و انتظام، مملکت میں امن و آمان کا قیام، عدل و انصاف کا استحکام معاشرہ میں معروف کا چلن، فواحش و منکرات سے معاشرہ کی تطھیر۔ رعایہ میں غیر مسلم باشندے ہوں تو دستور و قانون کے مطابق ان کااور ان کی مذہبی آزادی کا تحفظ ، ان کودئے گئے دستوری حقوق کے مطابق ان کا اکرام و احترام ان کی پوری برادری کے جان و مال، عزت و آبرو کے حفاظت کی کامل ضمانت اور ان کے ساتھ بھی بلا تفریق عدل و انصاف وغیرہ جیسے اہم اور بنیادی امور کی سختی سے نگرانی اور ان پر عمل درآمد اسلامی مملکت کے سربراہ و امیر کا فریضہ، منصبی ہے۔غیر اسلامی ملک ہو جیسے آج کل سیکولر اور جمہوری طرز کا نظام دنیا کے بعض ملکوں میں قائم ہے۔ یہ نظام چونکہ کسی ایک مذہب یا فکر و تہذیب کا نمائندہ نہیں ہوتا بلکہ کئی مذاہب کے ماننے والے اور مختلف کلچر و تہذیب کے نمائندہ افراد کی نمائندگی کرنے والا سارے مذاہب اور اس کے ماننے والوں کے متفقہ و مساویانہ حقوق کی رعایت کے ساتھ چلنے والا نظام ہوتا ہے۔جو انتخابات کے ذریعہ طئے ہوتا ہے مختلف سیاسی جماعتیںاپنے نمائندے کھڑا کرتی ہیں۔ بلا لحاظ مذہب و ملت و بلا لحاظ فکر و تہذیب سارے باشندگان وطن مل کر اپنے نمائندہ منتخب کر کے ایوان حکومت میں بھیجتے ہیں۔دستورکی روسے سادہ اکثریت(Simple Majority) کی بنیاد پرکوئی بھی جماعت حکومت تشکیل دے سکتی ہے ۔ اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی ہو تو کسی اور جماعت کی تائید سے یا پھر بعض دفعہ حسب ضرورت کئی ایک جماعتوں کی تائید سے بھی حکومت تشکیل پاتی ہے۔ اس طرح کے جمہوری نظام کے سارے سربراہان صدر و نائب صدر، وزیراعظم گورنرس و دیگر متفرق قلمدانوں کے وزراء و اہم ذمہ داران و نگران سب کے سب حکومت کے نظم وانتظام میں درجہ بدرجہ اپنی ایک منفردشناخت رکھتے ہیں، ہر ایک اپنے منصب و عہدہ کے مطابق آئین حکومت کی پاسداری کا ذمہ دار ہوتا ہے ، حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ ملک کے دستور وقانون کی ہر قیمت پر حفاظت کرے، تمام طبقات کو دستور و قانون میں دئے گئے مراعات و تحفظات پر عمل کو یقینی بنائے، بھید بھائو یا تعصب و عداوت کو عدل و انصاف کے قیام میں حائل نہ ہونے دے۔

امن و آمان کی برقراری حکومت کی اولین ترجیح ہو۔بڑی سے بڑی قیمت ادا کر کے امن و آمان کے قیام سے ملک کے باسیوں کیلئے سکون و اطمینان کا ماحول فراہم کرے، بگاڑو فساد، نفرت و عداوت، تعصب و دشمنی، لوٹ کھسوٹ، چوربازاری، غنڈہ گردی، تشدد و انتہاپسندی، ظلم وجور، قتل و غارت گری وغیرہ جیسے گھنائونے جرائم کو کسی قیمت پر پنپنے کا موقع نہ دے، ملک کی سلامتی اور اس کی ترقی رعایہ کی حفاظت اور ان کی بنیادی ضروریات جیسے تعلیم، صحت، روزگار وغیرہ جیسے اہم اہداف کو کھلے دل و کھلے ذہن کے ساتھ عمدہ انداز میں روبہ عمل لانے کی ایسی منصوبہ بند و کامیاب کوشش کہ رعایہ کا کوئی فرد ان بنیادی سہولتوں سے محروم نہ رہنے پائے۔دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو تین طرح کی حکومتوں کے وجود کا پتہ چلتا ہے ایک خلافت، دوسری ملوکیت، تیسری جمہوریت،اسلام نے نظام خلافت کی بنیاد ڈالی جو دراصل جمہوری نظام ہی ہے ،موجودہ جمہوریت اور اسلامی جمہوریت میں فرق یہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام سارے عوام مل کر بناتے ہیں جبکہ اسلامی جمہوریہ ایک شورائی نظام ہوتا ہے جس کو عوام کے چنندہ ومنتخب زعماء ملت واصحاب علم ودانش ،دین ودیانت ،تقویٰ وصلاحیت کی بنیاد پر کسی کو حاکم منتخب کرتے ہیں ۔خلافت راشدہ کا زرین دور اس کی ایک عظیم مثال ہے ۔حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے خلافت راشدہ کو نشان راہ بناکر بے مثال حکومت کی ہے ،اپنے طرز حکومت سے آنے والے حکمرانوں کیلئے ایک روشن شاہراہ بنائی ہے ۔اس راہ پر چل کر حکومت کی جائے تو صحیح معنی میں حکمرانی کا حق ادا ہوسکتاہے ۔ایمان کی شرط کے ساتھ ایسے حکمرانوں کو دونوں جہاں کی کامیابی نصیب ہوسکتی ہے ۔برصغیر ہندوپاک میں ایک دور حکومت خلافت کا رہا ہے جس کو خلافت عثمانیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے دشمنان اسلام کی سازشوں اور خود ملت اسلامیہ کی نادانیوں سے اس نظام خلافت کو بالآخر نقصان پہونچا۔ خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعدیہ نظام باقی نہیں رہا۔دوسرے طرـز کی حکومتوں نے اسکی جگہ لی۔

خاص طور پر ہندوستان میں ملوکیت اور بادشاہت کاراج قائم ہوگیا۔مسلم بادشاہوں اور غیر مسلم راجائوں نے رعایہ پر حکومت کی ان حکمرانوں میں وہ بھی رہے ہیں جنہوں نے عیش و عشرت کو مقصد حیات بنایا،موت و آخرت کو فراموش کر کے رعایہ پر ظلم و جور کے ساتھ نظام حکومت چلایا، انسانی دلوں میں نفرت کا لاوہ دھکایا۔ مظلوم رعایہ کی آہوں نے ان کے تخت و تاج کو فنا کر دیا ۔قانون قدرت ونظام فطرت میں ظلم وجور کو زیادہ دنوں تک پنپنے کا موقع کہاں ،اس کو دیر سو یر ختم ہونا ہے ،چنانچہ ان کی حکومتیں صفحۂ ہستی سے معدوم ہوتی رہیں اور ظالم حکمران کیفرکردار کو پہونچتے رہے ۔تاریخ کے صفحات میں وہ اپنی بد کرداری کیلئے بدنام ہیں،ان کے سیاہ کارنامے تاریخ کا ایک سیا ہ باب ہیں۔ اور ایسے حکام بھی گزرے ہیں جنہوں نے بلا لحاظ مذہب وملت وبلالحاظ قوم وقبیلہ ریایہ پر وری کو اپنا نصب العین بنایا ، اپنے بے لاگ عدل وانصاف ،مہربانی ورحمدلی کی وجہ صرف تخت حکومت پر متمکن ہی نہیں رہے بلکہ انسانی دلوں پر حکومت کی ،ملکوں کو فتح کرنے سے زیادہ انسانی دلوں کو فتح کر کے فاتح زمانہ بنے۔ اخلاقی ، تعلیمی، فلاحی و رفاہی اپنے بے مثال کارناموں کی وجہہ دنیا میں نیک نام ہوئے، تاریخ کے اوراق میں ان کے عمدہ کارہائے نمایاں محفوظ ہونے کے ساتھ وہ انسانی سینوںمیں آج بھی زندہ ہیں۔ دور کیوں جائیے ابھی ملک کی آزادی سے پہلے تک دکن کے علاقوں میں جو حکمران تخت سلطنت پر متمکن رہے ہیں وہ آصف جاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آج بھی ان کی خدمات کے چرچے زباں زد خاص و عام ہیں، مسلم تو مسلم ہمارے وطن کے غیر متعصب برادران وطن بھی ان کے بے مثال کارناموں کی وجہہ ان کو یاد کرتے ہیں، ان کی انسان دوستی، انسانیت نوازی، غرباپروری، علم دوستی بلا لحاظ مذہب و ملت ہر ایک کی خیر خواہی، انصاف پسندی، محبت و سلوک آج تک ضرب المثل ہے۔ محبوب علی خاں مرحوم آصف جاہ سادس کوان کی رعایہ پروری کی بناء ہمارے بعض برادران وطن ’’دیوتا‘‘ تسلیم کرتے ہیں، عثمان علی خاں مرحوم آصف جاہ سابع کی علمی، سماجی، رفاہی خدمات سے کون ہے جو ناواقف ہے ان کے عظیم کارنامے جو ان کے دور حکومت کی یادگار ہیں قوم و ملت آج بھی ان سے بھر پور استفادہ کر رہی ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ملک کو آزاد ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا لیکن پھر بھی سلطنت آصفیہ کا عشر عشیر بھی اس آزاد حکومت نے ملک و ملت کی شایدہی کوئی خدمت انجام دی ہو۔اس وقت ضرورت ہے کہ حکام جـذبہ خدمت کے ساتھ آگے آئیں۔شخصی مفادات کو پس پشت ڈالیں۔رعایا کے درد کو محسوس کر یں اپنی مملکت میں رفاہی کاموں کا جال پھیلائیں ۔سابقہ ادوار میں جن حکمرانوں نے خدمت خلق کو اپنا نصب العین بنا کر ملک و ملت کی گرانقدر خدمت کی ہے اس کو نشان راہ بنائیں۔اس وقت خاص طور پر ہندوستان میں ایسے خدامان وطن و اہل وطن کو سربراہ مملکت بنانے کی سخت ضرورت ہے۔جو جذبہ خدمت سے سر شار ہوں، رعایا کی جو بنیادی ضروریات ہیںان کی تکمیل کو ترجیحی طور پر اور مسائل پر مقدم رکھیں۔روزگار،تعلیم،صحت جیسے بنیادی مسائل کو فربہ قریہ قریہ، کوچہ کوچہ اور گھر گھر پہونچائیں۔ملک سے بھید بھاو دشمنی و عداوت کی نفرت آمیز فضا کو اپنی حسن تدبیر سے ختم کریں۔اس کی جگہ پیار و محبت بھائی چارہ، انسان دوستی کی فضا قائم کرنے کی جدو جہد کر کے پورے ملک کو امن و آمان کا گہوارہ بنانے میں نمایا ں رول ادا کریں۔ جمہوری حکومتوں میں اپوزیشن کا ایک نمایاں رول ہو تا ہے۔ ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا بشرطیکہ وہ نیک نیت ہوں قوم و ملک کی ترقی اور اس کا مفاد عزیز ہو اپنے مفادات سے زیادہ قوم و ملت کی فلاح و بہبود مقصود ہو۔ اس لئے ان کا فرض بنتا ہے کہ ملک و قوم کی صحیح ڈھنگ سے خدمت ہو رہی ہو حکومت کا بھرپور ساتھ دیں۔ حکومت کے وہ منصوبے جو قوم و ملک کے حق میں ہوں ان کو روبہ عمل لانے میں حکومت کے ساتھ تعاون عمل کریں۔حکومت غلط رخ پر جارہی ہو ضرور اس کی مخالفت کی جا سکتی ہے اور سیدھی راہ دکھائی جا سکتی ہے یہ نہیں کہ اچھے کاموں میں موانعات کھڑی کی جائیں یا یہ کہ جا و بے جا صرف تنقید کا نشانہ بنایا جائے لیکن افسوس کہ آج اپوزیشن نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کا کام ہی صرف تنقید کر نا اور حکومت کے منصوبوں کی خواہ وہ ملک و قوم کے حق میں مفید تر ہی کیوں نہ ہوں تنقیص کر نا اس طرز فکر و طریقہ عمل نے جمہوریت کو کافی نقصان پہونچایا ہے۔اپوزیشن نے اپنا ایجنڈہ ہی یہ بنالیا ہے کہ حکومت کے ہر کام میں رکاوٹ کھڑی کی جائے خواہ وہ کتنا ہی اچھا اور مفید کیوں نہ ہو۔ اس سے مقصود ان کا صرف حکومت کو رسوا کرنا ہو تا ہے۔ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ حکومت کوئی غلطی کر رہی ہو تو اس کا ہاتھ تھاما جائے غلط اقدامات سے اس کو روکا جائے۔ جمہوری نظام میں حکومت کو صحیح رخ پر لے چلنے میں اپوزیشن کا کردار بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ان کا کردار تعمیری ہو۔ تنقید برائے تعمیر ہو نہ کہ تنقید برائے تنقید۔ محض مخالفت کو مقصود بنا کر حقائق سے آنکھ بند کر کے اگر حکو مت کے کاز کو غلط ٹہرایا جائے تویہ ملک و قوم کی کوئی خدمت نہیں بلکہ بد خدمتی ہو گی ۔حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اپوزیشن کی ہر بات کو مستردنہ کرے بلکہ ان کی تعمیری تنقید کو گوارہ کرے۔ اور ان کی اچھی آراء کا کھلے دل و دماغ کے ساتھ استقبال کرے۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ حقائق سے منہ موڑ کر صرف نفس کی خواہش پر چل کر من مانی کر نے کو موجودہ دور نے سیاست کا نام دیدیا ہے۔اس لئے حکومتیں بھی اپنے ایجنڈہ میںمخلص نہیں ہیں نہ اپوزیشن ۔نتیجہ میں رعایہ مشکلات سے دوچار ہے ، رعایہ کی خدمت اور ان کی فلاح و بہبود قوم و ملک کی ترقی کے بجائے نتائج برعکں حاصل ہو رہے ہیں۔