سربراہان ممالک کو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے عزم و یقین سے لبریز حکیمانہ خطوط

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی ولادت باسعادت مکہ مکرمہ کی سنگلاخ وادی میں ہوئی ۔ اس کی وادیوں اور صحراؤں میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی نشوونما ہوئی اس وقت تک عربوں کی دنیا کے نقشے میں کوئی اہمیت نہ تھی ۔ ساری دنیا پر روم و فارس کی عظیم الشان حکومتوں کا دبدبہ تھا ۔ اس وقت کے سربراہان ممالک عربوں سے کوئی خطرہ محسوس نہ کرتے اور نہ ہی ان کی طرف توجہ کرتے ۔ ان کے پاس نہ فن و ہنر تھا اور نہ ہی کوئی طاقت و قوت، نہ کوئی تنظیم و حکومت تھی اور نہ ہی فوج و سپاہ ، وہ آپسی قبائل میں بٹی ہوئی ایک پسماندہ قوم تھی ۔ ان کے پاس آباء و اجداد کی تقالید اور ان پر فخر و ناز ہی سب سے بڑی پونجی و سرمایہ تھا ، جو کسی قیمت پر اپنے آباء و اجداد کی تقلید کو چھوڑنا گوارہ نہ تھے ، ایسی قوم میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی بعثت مبارکہ ہوئی اور اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’یقینا ہم نے آپ کو ساری انسانیت کیلئے خوشخبری سنانے والے اور ذکر سنانے والے بناکر بھیجا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘۔ ( سورۃ سبا ۳۴؍۲۸)

آپسی ریشہ دوانیوں کی شکار دنیا سے الگ تھلگ ، تہذیب و تمدن سے نآشنا قوم میں پیدا ہونے والی ذات گرامی کو دنیا میں بسنے والی ساری انسانیت کو پیغام حق پہنچانا تھا اور کسی عزم و ہمت ، صبر و تحمل ، استقامت و استقلال سے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے پیغام حق کو مخلوق خدا تک پہنچایا ، غور کیجئے دنیا تو دور تھی آپ ؐ اپنے وطن میں پردیسی و اجنبی ہوگئے ، اپنے ہی شہر میں اپنے عزیز و اقارب میں کوئی حامی و طرفدار نہ رہا ، ہجرت پر مجبور ہوگئے ، رات کے اندھیرے میں مکہ مکرمہ سے نکل کر مدینہ منورہ پہنچے ۔ دنیا کے سارے اسباب و وسائل خلاف ہیں لیکن صبر و ہمت عزم و یقین میں کوئی کمی نہیں ، ایک پردیس میں اجنبی ہوکر نہایت حکمت و دانشمندی سے ایک چھوٹی سلطنت قائم کی ، قوت مدافعت پیدا کی قریش کے مقابل ایک قوت اور محاذ تیار کیا روز بہ روز طاقت و قوت میں اضافہ ہونے لگا ۔ ۶ھ میں صلح حدیبیہ ہوئی ، صلح حدیبیہ میں بظاہر مسلمانوں کی کمزوری معلوم ہورہی تھی لیکن ایک طرف جان کی دشمن قوم ، اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی قسم کھانے والی قوم اسلام کی قوت کے سامنے مبھوت ہوگئی اور صلح پر آمادہ ہوئی تو یہی صلح ایک فتح مبین کا پیش خیمہ بھی بنی اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے ملک عرب کے باہر دنیا کے عظیم سربراہان مملکت کی طرف توجہ فرمائی اور دنیا کی عظیم عظیم طاقتوں کو اسلام کی دعوت دی ، پیغام حق سنایا اور ان کو آخرت کی کامیابی و کامرانی کی طرف بلایا اس طرح آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے حجت کی تکمیل فرمائی ، مستقبل میں ان کی طرف رخ کرنے کا بھی پیغام دیا ۔

خطوط جہاں اپنے اعجاز و اختصار کے باوجود فصاحت و بلاغت کی موتیوں سے جڑے ہوئے ہیں اور عربی ادب میں اونچا مقام رکھتے ہیں وہیں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے عزم و یقین کے غماز بھی ہیں۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے ایک چھوٹی سی مملکت قائم کی تھی جس کی عمر بمشکل پانچ سال تھی اور جس کی فوج تین ہزار سے متجاوز نہ تھی ، اور جن کے پاس کوئی اعلیٰ اسلحہ نہ تھے اور نہ ہی وہ قوم تربیت یافتہ و منظم تھی اور اطراف و اکناف میں سارے دشمن سے گھری ہوئی تھی ۔ ایسے وقت میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے دنیا کے ایسے عظیم عظیم فرمانراؤں کو دعوت دی جن میں سے بعض کی حکومتیں آدھی دنیا پر قائم تھیںجو صدیوں سے حکمرانی کا سلیقہ جانتے تھے ۔ لاکھوں کی تعداد میں جن کی فوج تھی ، ایسی عظیم عالمی طاقتوں کو نہایت حکمت اور بے باکی سے بلاخوف و خطر پیغام حق پہنچایا ، چنانچہ آپ نے حاکم مصر ، مقوقس ، قیصر روم ’’ہرقل‘‘ ، شاہ فارس ’’کسریٰ‘ ‘ ، امیر بحرین ’’منذر بن سلوی‘‘ ، امیر یمامہ ’’ھوذہ حنفی ‘‘ ، عمان کے بادشاہ ہان ، حاکم یمن ’’حارث حمیری ‘‘ ، امیر عساسہ ’’حارث غسانی ‘‘ و دیگر سرداران قبائل کو خطوط روانہ فرمائے۔ جن کے چند اقتباس درج ذیل ہیں۔

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم بادشاہ روم ’’ھرقل‘‘ کے نام ایک خط لکھا جس کو حضرت دحیہ کلبیؓ نے حاکم بصری کے توسط سے ھرقل کو پہنچایا جس میں آپ نے تحریر فرمایا :
’’محمد ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) اﷲ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے ، ہرقل حاکم روم کے نام ، سلام اُس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی، میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں ، اسلام لے آ، سلامت رہیگا ، اﷲ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر عطا فرمائیگا اور اگر تو روگردانی اختیار کریگا تو تیری تمام رعیت (ایمان نہ لانے ) کا گناہ تجھ پر ہوگا ۔ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ ہم اﷲ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی ہستی کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں کوئی کسی کو اﷲ کے سوا کارساز نہ بنائے۔ اگر وہ نہ مانیں تو آپ کہدیجئے کہ تم گواہ رہو ہم مسلمان ( فرمانبردار ) ہیں۔

اسی سال نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے خسرو پرویز ، کسرائے ایران کے نام بھی خط حضرت عبداللہ بن حذافہ السہمیؓ کے ذریعہ رروانہ فرمایا ۔ اس نامہ مبارک میں آپؐ نے تحریر فرمایا:
’’محمد ( صلی اﷲ علیہ و سلم) اﷲ کے رسول کی طرف سے کسریٰ ، حاکم فارس کے نام سلام اس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لایا اور اس بات کی گواہی دی کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں ہے اور یہ کہ محمد ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) اﷲ کے بندے اور رسول ہیں۔ میں تمہیں اﷲ عزوجل کے حکم کے مطابق دعوت ( اسلام ) دیتا ہوں۔ اس لئے کہ میں تمام لوگوں کی طرف اﷲ کا رسول ہوں تاکہ جو لوگ زندہ ہیں انھیں ڈراؤں اور کفار پر اﷲ کی حجت پوری ہوجائے ، اسلام لے آ ، سلامت رہیگا ورنہ تمام محبوس کے اسلام نہ لانے کا گناہ تجھ پر ہوگا۔ (زرقانی ، شرح مواطب ، ۳: ۳۴۱)

کسریٰ نے جب نامۂ مبارک کو سنا تو آگ بگولا ہوا ، اور شان اقدس میں بے ادبی کا مرتکب ہوا اور نامۂ مبارک کو چاک کیا۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کو اطلاع ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے یہ کلمات ادا ہوئے جس طرح اس نے میرے خط کو چاک کیا اﷲ تعالیٰ اس کے ملک کو پارہ پارہ کردے اور بہت جلد اس کے اثرات ظاہر ہوئے اور حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کے عہد مبارک میں اس کا آخری وارث ’’یزدگرد‘‘ نہایت کسمپرسی کی حالت میں مارا گیا اور تمام فارس مسلمانوں کے زیرحکومت آگیا۔

۶ھ میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے شاہ حبشہ اصمحہ بن ابحر نجاشی کو حضرت عمرو بن امیہ ضمری کے ذریعہ سے اپنا نامۂ مبارک روانہ کیا ، یہی وہی نیک دل حکمراں تھے جنھوں نے ہجرت سے قبل مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد کو امن دیا تھا ، جب انھوں نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا نامۂ مبارک سنا تو فوراً مسلمان ہوئے اور کہا : ’’میں گواہی دیتا ہوں اور قسم کھاتا ہوں کہ آپ وہی نبی امی ہیں جن کا اہل کتاب انتظار کررہے تھے ، جس طرح حضرت موسیٰ نے راکب العمار ( دراز گوش کے سوار ) حضرت عیسیٰؑ کی بشارت دی اسی طرح راکب الجمل ( اونٹ سوار) محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کی بعثت کی خوشخبری دی ہے ۔ مجھے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کی رسالت کا اس درجہ یقین ہے کہ عینی مشاہدہ کے بعد بھی اس میں اضافہ نہ ہوگا ۔ (ابن القیم : زادالمعاد ۳۰:۶۹ ، البرزقانی ، شرح مواطب ۳:۳۴۳۔۳۴۵)

نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم ۹ھ میں ان کے انتقال پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی (بخاری کتاب الجنائز )
آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے اطمحہ نجاشی کے جاشین کو بھی اسلام کی دعوت دی لیکن اس کا ایمان لانا ثابت نہیں۔ عمان پر جلندی کے دو بیٹے ’’جعفر ‘‘ اور عبد‘‘ مشترکہ طورپر حکمران تھے ، آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے دونوں کی طرف مشترکہ نامۂ مبارک حضرت عمرو بن العاص کے ذریعہ روانہ فرماے جس کا مضمون یہ تھا ۔

بسم اﷲ الرحمن الرحیم محمد بن عبداللہ (صلی اﷲ علیہ و سلم )اﷲ کے رسول کی طرف سے الجلندی کے دونوں بیٹوں جعفر اور عبد کے نام ۔ اسلام لے آؤ ، سلامت رہو گے ۔ اس لئے کہ میں تمام لوگوں کی طرف اﷲ کا رسول ہوں، اکہ ان لوگوں کو جو زندہ ہیں ڈراؤں اور اﷲ کی بات (حجت ) کافروں پر تمام ہوجائے ، اگر تم اسلام لے آؤ گے تو اپنے عہدوں پر سلامت رہوگے ، ورنہ جان لو کہ تمہاری بادشاہت بہت جلد زائل ہوجائیگی اور میرے گھڑ سوار جلد تمہارے صحنوں کو روند ڈالیں گے اور میری نبوت تمہاری سلطنت پر غالب آجائیگی ۔ ( الزرقانی : شرح المواھب ، ۳: ۳۵۳)

حضرت عمرو بن العاص ایک کامیاب جرنیل ہونے کے ساتھ ایک کامیاب سفیر بھی تھے ، آپ کی گفتگو سے وہ دونوں متاثر ہوئے اور اسلام میں داخل ہوئے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے حاکم مصر مقوقس کی طرف حضرت دحیہ کلبیؓ کے ساتھ نامہ مبارک روانہ کیا اس نے نامہ مبارک کا احترام کیا اور حضور پاک صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں تحائف پیش کئے جن میں دو کنیزیں بھی شامل تھیں۔ ان میں سے ایک حضرت ماریہ قبطیہ ہیں جو حرم نبوی میں داخل ہوئیں اور حضرت ابراہیم آپ ہی کے بطن سے ہیں لیکن خود مقوقس نے اسلام قبول نہیں کیا ۔ (زرقانی : شرح مواھب ۳ : ۳۴۶ ۔ ۳۵۰)
دمشق کے حاکم حارث بن شمر الغسانی کے نام بھی ایک والا نامہ ارسال کیا گیا جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم محمد ( صلی اﷲ علیہ و سلم ) اﷲ کے رسول کی طرف سے حارث بن شمر کے نام ۔ سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور جو اﷲ تعالیٰ پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ۔ میں تجھے اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ تو اﷲ تعالیٰ پر ایمان لے آ جوکہ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں تو تیری سلطنت باقی رہیگی ‘‘۔ ( ابن القیم : زاد المعاد ۳۰: ۶۹۶)

نامہ مبارک سننے کے بعد حارث بہت بھڑکااور کہا کون ہے جو مجھ سے یہ ملک چھین لیگا ، اس نے فوج کو تیاری کا حکم دیا اور قیصر روم کی طرف خط روانہ کیا مگر قیصر روم نے اس کو اپنا ارادہ ملتوی کرنے کی ترغیب دی چنانچہ حارث نے حضرت شجاع کو بلوایا اور سو مثقال سونا حضرت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں نذر کیا لیکن شرف باسلام نہیں ہوا ۔

ان تمام خطوط کو جامعہ نظامیہ کے فیض یافہ عالمی شہرت کے حامل اسلامی محقق ڈاکٹر محمد حمیداﷲ نے ’’الوثائق السیاسیۃ‘‘ میں بڑی جانفشانی سے یکجا کیا ہے ۔ اس کے علاوہ اور رسائل و خطوط ہیں جو مختلف قبائل کے سرداروں اور حکمرانوں کو لکھے گئے تھے جو آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی پیغمبرانہ عزم و ہمت اور حکمت و دانائی کے غماز ہیں اور عصر حاضر میں ہم اہل اسلام کو عزم و یقین ، حکمت و دانشمندی اور بے باکی و دلیری سے بلا خوف و خطر اسلام کے پیغام کو غیرمسلم برادران وطن و دیگر اقوام عالم تک پہنچانے اور مؤثر طریقہ تبلیغ و جدید ذرائع ابلاغ کے حتی المقدور استعمال کی ترغیب دے رہی ہیں۔