زمانہ تم کو بھی چاہے گا ٹوٹ کر محسنؔ

زمانہ تم کو بھی چاہے گا ٹوٹ کر محسنؔ
یہ دور ختم تو ہو شخصیت پرستی کا
پانچ ریاستوں میں انتخابی مہم
ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا موسم ہے ۔ یہاںانتخابی مہم پوری شدت کے ساتھ شروع ہوچکی ہے ۔ چھتیس گڑھ میں تو پولنگ کا ایک مرحلہ بھی ہوچکا ہے جبکہ دوسری ریاستوں میں اب وقفہ وقفہ سے پولنگ کا دن قریب آتا جا رہا ہے ۔ جیسے جیسے پولنگ کا وقت قریب آ رہا ہے انتخابی مہم عروج پر پہونچتی جا رہی ہے ۔ سیاسی جماعتیں اپنی اپنی کامیابی کو یقینی بنانے سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے ان ریاستوں میں انتخابی مہم کا معیار دن بدن گرتا جا رہا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اور قائدین اپنی کامیابی اور حصول اقتدار کیلئے اخلاقی معیار کا خیال رکھنے کو تیار نہیں ہیں اور انتخابی مہم کے دوران ایسے ایسے ریمارکس کئے جا رہے ہیں جنہیں شرمناک کہا جاسکتا ہے ۔ ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنا اور کام کاج کی خامیوں کو منظر عام پر لانا ہر جماعت اور امیدوار کا کام ہے لیکن جس طرح سے انتخابی مہم کا معیار گرتا جا رہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ یہ ہندوستان کے جمہوری ڈھانچہ کیلئے بھی اچھی علامت نہیں کہی جاسکتی ۔ مخالف جماعتوں اور امیدواروں کے عوامی خدمت کے ریکارڈ کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔ ان کی ناکامیوں کو اجاگر کیا جاسکتا ہے ۔ ان کے کرپشن کا پردہ فاش کیا جاسکتا ہے ۔ خود اپنی جماعت یا اپنے کارناموں کو عوام کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے ۔ ترقیاتی منصوبوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے ۔ مستقبل کے عزائم اور ایجنڈہ کو پیش کیا جاسکتا ہے اور پھر عوام سے ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ ان سے بہتر مستقبل کے وعدے کئے جاسکتے ہیں ۔ یہی روایت ہندوستانی سیاست اور جمہوریت کی رہی ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں ‘ حکومتوں کی ناکامیوں کو اور غلط کاریوں کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں اور انہیں ختم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے عوامی تائید کی طلبگار ہوتی ہیں۔ حکومتیں اپنے کارناموں کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں اور پھر مستقبل میں مزید بہتر کام کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے ان سے ووٹ مانگتی ہیں لیکن اب ساری صورتحال ہی بدل کر رہ گئی ہے ۔ اب بنیادی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے انتخابی مہم کے معیار کو انتہائی پستی میں ڈھکیل دیا گیا ہے ۔
کسی کی شخصیت کو نشانہ بنانا ‘ کسی کے خاندان پر نازیبا ریمارکس کردینا اور اپنے منہ میاں مٹھو بن جانا ہر جماعت ‘ ہر لیڈر اور ہر امیدوار کا وطیرہ بن گیا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے لیڈروں اور ایسی جماعتوں کو سبق سکھانے کا رجحان ابھی شروع نہیں ہوا ہے ۔ جو لوگ جمہوریت کے نام پر ریاستی اور قومی سطح پر اقتدار حاصل کرتے ہیں وہی جمہوریت کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ وہی لوگ اپنی کامیابی کیلئے جمہوری اصولوںکو تار تار کردیتے ہیں اور کہیں مذہب کا سہارا لیا جاتا ہے تو کہیں ذات پات کی بات کی جاتی ہے ۔ کہیں مندر کی بات ہو رہی ہے تو کہیں لیڈروں کے مندروں کو جانے پر تنقیدیں ہو رہی ہیں۔ کہیں پڑوسی ملک پر طعنے کسے جا رہے ہیں تو کہیں ایک مخصوص طبقہ کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے ۔ یہ ساری صورتحال ملک کی جمہوریت کیلئے انتہائی منفی اثرات کی حامل ہوسکتی ہے اور ہندوستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی جمہوریت ہوتے ہوئے بھی اس کے تحفظ اور اس کے استحکام میں کامیاب نہیں ہو پا رہا ہے ۔ یہ سب کچھ سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ یہ جماعتیں اقتدار کی طلب میں اس قدر لالچ کا شکار ہوگئی ہیں کہ وہ جمہوریت کو تار تار کرنے سے گریزاں نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں ملک کے مستقبل کی کوئی فکر لاحق ہے ۔
موجودہ صورتحال اور بھی سنگین ہوجاتی ہے جب ان جماعتوں کے قومی سربراہ اور دستوری عہدوں پر فائز افراد تک اسی طرح کی روش کو اپنالیتے ہیں۔ اپنی صفوںمیں موجود اس طرح کے قائدین کو روکنے اور انہیں تلقین کرنے کی بجائے راست یا بالواسطہ طور پر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور خود بھی ایسی زبان استعمال کرنے لگتے ہیں جن سے سماج میں یکجہتی کی بجائے نفاق کی فضا کو تقویت ملتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کی اہمیت کو سمجھیں اور عوام کے سامنے اپنے کارکردگی کے ریکارڈ اور ایجنڈہ کے ساتھ رجوع ہوں۔ کسی کی شخصیت یا خاندان کو نشانہ بنانے کی بجائے ان کے منصوبوں اور عوامی خدمات کے ریکارڈ پر بات کی جائے ۔ یہی جمہوریت کے حق میں بہتر ہے ۔