ریکس ٹیلرسن کی برطرفی

شمالی کوریا کے صدر کم کے ساتھ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی مجوزہ ملاقات سے قبل امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن کی برطرفی نے ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں میں پائے جانے والے خامیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ ٹیلرسن کی جگہ سی آئی اے کے ڈائرکٹر مائیک پومپیوکو مقرر کیا گیا ۔ سی آئی اے کے لئے پہلی مرتبہ ایک خاتون کو سربراہ مقرر کیا جانا بھی امریکی انٹلی جنس ایجنسیوں کے لئے حیرانی کی بات ہوگی ۔ ریکس ٹیلرسن کی برطرفی کی کئی وجوہات ہوسکتے ہیں ان میں ایک وجہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر ان کے اعتراضات بھی ہیں ۔ انہوں نے ٹرمپ کی کئی پالیسیوں کو چیالنج کیا تھا خاص کر 6 مسلم ممالک کے شہریوں پر سفر کی پابندی کے وہ مخالف تھے ۔ اس کے علاوہ ایران ‘ لیبیا ‘ شام اور یمن کے علاوہ وینزویلا ‘ شمالی کوریا اور چاڈ کے بارے میں صدر ٹرمپ کے منصوبوں کو بھی انہوں نے نشانہ بنایا تھا ۔ ٹیلرسن کی جگہ سی آئی اے کے سربراہ کو نامزد کرنے کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملک شام میں روس کی فوجی کارروائیاں اور صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت سے متعلق الزامات کی جسٹس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے تحقیقات کے بارے میں کئی سوالات کا جواب دے سکیںگے ۔

صدر ٹرمپ کی نظم و نسق میں ٹیلرسن کی میعاد کو مختصر کرنے کا واقعہ امریکی پالیسی اور سابق امریکی سکریٹری کی میعاد کے مقابل بہت ہی کم ہے ۔ جارج بش کے دور میں کولین پاول نے 1467 دن تک خدمات انجام دی تھیں ۔ صدر بش کے ہی دور میں کونڈا لیزارائس نے 1455 یوم وزارت خارجہ سنبھالی تھی ۔ ہلری کلنٹن نے بارک اوباما کے دور میں 1472 یوم اور بارک اوباما کے دور میں جان کیری نے 1449 یوم تک امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ کے حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں ۔ جبکہ ٹرمپ نظم و نسق میں ریکس ٹیلرسن نے صرف 405 دن ہی کام کیا ہے ۔ صدر ٹرمپ کو یہ فیصلہ کرنے سے قبل شائد شمالی کوریا سے مذاکرات کا موقع حاصل نہیں تھا جب شمالی کوریا سے بات چیت کا موقع مل رہا ہے تو ٹرمپ نے اپنی خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کے لئے ایک وفادار ساتھی کو منتخب کیا ہے ۔ مائیک پومپیو نے صدارتی انتخابات کے دوران ٹرمپ کے حق میں وفاداری کا مظاہرہ کیا تھا ۔ اب ان سے یہی توقع کی جا رہی ہے کہ وہ سی آئی اے کے ڈائرکٹر امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ کے طور پر ایک نئی سوچ کے ساتھ خارجہ پالیسی کو مضبوط بنائیں گے ‘ خاص کر روس اور اس کے صدر ولاد میر پوٹین کے ‘ ان سے سخت پالیسیوں کو وضع میں کامیاب ہوں گے ۔ مگر امریکی فیڈریشن میں حالیہ مہینوں رونما ہونے والی کمزوریوں سے یہ تو ظاہر ہو رہا ہے کہ اس مرتبہ عوام کو ایک کمزور ملک کی جانب ڈھکیلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ اس مرتبہ نظم و نسق کے استحکام میں آنے والی خرابی امریکی عوام کو فکر مند بنا دے گی ۔ نئے وزیر خارجہ پومپیو تو سینیٹ کی جانب سے توثیق ہوچکی ہے حالانکہ سینیٹ ری پبلکن کی اکثریت سے کم ہے پھر بھی اگر سینیٹ نے ان کے تقرر کی توثیق کر دی تو نئے وزیر خارجہ سے کئی توقعات پیدا ہوں گے اور ٹرمپ نے برطرف شدہ ٹیلرسن کے کام سے جس طرح کی بیزارگی کا اظہار کیا تھا وہ سی آئی اے کے سابق ڈائرکٹر کے کام سے مطمئن ہوتے ہیں تو امریکہ کی خارجہ پالیسی میں تسلسل ہونے دیا جانے کی توقع ہوگی ۔

ایران کے نیوکلیئر معاہدہ پر ٹرمپ کی پالیسی پر بھی نظر رکھی جاری ہے کیونکہ ٹرمپ نے اقتدار پر آنے کے بھی سے ہی ایران کے ساتھ امریکہ کے نیوکلیئر معاہدہ اور تحدیدات میں کمی کی مخالفت کرنا شروع کیا تھا ۔ اور وہ اس معاہدہ پر تنقید کرتے ہوئے اسے ایک خراب معاہدہ قرار دیا تھا ۔ انہوں نے ایک سے زائد مرتبہ کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ کئے گئے اس معاہدہ کو ختم کر دیں گے ۔ لیکن سکریٹری آف اسٹیٹ کی حیثیت ٹیلرسن نے ٹرمپ کے منصوبہ کے خلاف موقف اختیار کیا تھا جس کے نتیجہ میں وہ ٹرمپ کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ بن چکے تھے ۔ اب مائیک پومپیو سے ٹرمپ نے جو امیدیں وابستہ کی ہیں ان کے مطابق ایران کے بشمول کئی ملکوں کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو بہتر بنانے میں تعاون کریں گے ۔ ٹرمپ نظم و نسق نے ایک سال کے اندر پالیسی فیصلوں کے معاملہ میں کئی غوطے کھائے ہیں اب ٹیلرسن کی برطرفی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ٹرمپ کو ایک سوپر پاور ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے بہت کچھ سیکھنا باقی ہے وہ اپنے پیشرو کی پالیسیوں سے بہت دور کھڑے نظر آ رہے ہیں ۔ ایسے میں ان کی حکومت کی میعاد کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے والے قائدین کے موقف کو تقویت حاصل ہوگی ۔