ریاست کے اقلیتی محکمے

بجلیوں کا جہاں خطرہ ہوتا ہے وہیں پر نشیمن بنانے کی آرزو رکھنے والوں کو ایک دن خوشی سے دور اور غموں سے چور ہونا پڑتا ہے ۔ نئی ریاست تلنگانہ کے اقلیتی محکموں میں کام کرنے والوں نے بھی اپنی آرزو کے نشیمن بنانے کی غرض سے من مانی طریقے سے دھاندلیاں کی ہیں ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ریاست کے مسلمانوں کے لیے جو بھی اسکیمات تیار کی ہیں ان کو روبہ عمل لانے میں کوتاہیوں کا سلسلہ چلا آرہا ہے ۔ عہدیداروں میں پیشہ وارانہ رقابت یا برتری کی ضد نے مسلم نوجوانوں کی تعلیمی ترقی اور روزگار پر مبنی سہولتوں کی فراہمی مفقود ہو کر رہ گئی ہے ۔ سابق چیف منسٹر ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کے دور میں مسلم طلباء کو اسکالر شپ کی فراہمی میں فراخدلی کا مظاہرہ کیا گیا تھا جس سے کئی طلباء وطالبات کو انجینئرنگ ، و میڈیسن ، ڈگری اور دیگر پروفیشنلس کورسیس میں فیس ری ایمبرسمنٹ کے ذریعہ راحت حاصل ہوئی تھی اب تلنگانہ میں ماضی کی کانگریس یا تلگو دیشم حکومتوں سے زیادہ سہولتیں اور فوائد حاصل ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی لیکن گذشتہ 3 سالہ کارکردگی نے اقلیتوں کو ہر شعبہ میں مایوس کردیا ہے ۔ محکمہ اقلیتی بہبود کا برا حال ہے ، وقف بورڈ میں دھاندلیوں کا لامتناہی سلسلہ چلا آرہا ہے مسلم تاریخی عمارتوں اور اسلامی نشانیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ خاص کر تاریخی مکہ مسجد کے تحفظ کی باتیں کرنے والوں نے اپنی ذمہ داریوں کو صرف زبانی جمع قرض تک ہی محدود سمجھا ہے ۔ تحفظ مکہ مسجد کے نام پر جب سرکاری عہدیداروں نے مکہ مسجد کی عمارت کا جائزہ لیا تو یہ یقین ہوگیا تھا کہ تاریخی عمارت کو تحفظ دینے میں تیزی سے کام شروع کیا جائے گا لیکن یہاں بھی تاریخی عمارت پر سیاسی دکان چمکانے کی کوشش کی گئی ۔ مقامی جماعت کے قائدین ہر سال رمضان المبارک میں جلسہ یوم القرآن کے موقع پر اس مسجد سے استفادہ کر کے اپنے سیاسی عزائم کو مضبوط بناتے آرہے ہیں اور جب اس کے تقدس اور تحفظ کا سوال پیدا ہوتا ہے تو یہ اپنی ذمہ داریوں سے دور نظر آتے ہیں ۔ بظاہر یہ پیش پیش ہیں ، اللہ کے گھر کے نام پر اپنی سیاسی روٹی بچاتے ہیں اور انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہیں مکاری کی لکیریں ۔ وہ لیڈر ہی کیا جو اس عمر میں بدنام ہوجائے ۔ لیڈر وہ نہیں جو قابل الزام ہوجائے ۔ تاریخی عمارتوں کے علاوہ پرانے شہر کی ترقی کی راہ میں بھی کئی رکاوٹیں کھڑی کی جاچکی ہیں ۔ اس کی تازہ مثال حیدرآباد میٹرو ریل ہے ۔ شہر میں یہ میٹرو ریل آئندہ چند ہفتوں میں پرانے شہر کے ماسوا تمام روٹس پر دوڑے گی اور ترقی سے صرف پرانے شہر کے عوام ہی محروم رہیں گے ۔ لیکن پھر بھی ان لوگوں کا اپنے ووٹروں کے سامنے بڑا بھلا انداز بیان ہوتا ہے ۔ دامن میں کچھ نہ ہونے کا ان پر سب عیاں ہونے کے باوجود پرانے شہر کے عوام ان کو ہی اپنے زمانے کا مختار مان کر ترقی سے محروم ہوتے آرہے ہیں ۔ ایک طرف تلنگانہ حکومت اپنے اقلیتی محکموں کی کارکردگی سے بے خبر ہے تو دوسری طرف ریاستی عوام اپنے قائدین کی خرابیوں سے آگہی رکھنا نہیں چاہتے ۔ ایسے میں ان تک اسکیمات کے فوائد نہیں پہونچ رہے ہیں ۔ ریاست میں مسلمانوں کی وقف جائیدادوں کی نگرانی کرنے والے ادارہ وقف بورڈ کی دھاندلیوں کی ایک پرانی شکایت ہے ۔ اس پر ہر حکومت کے اقلیتی عہدیدار اپنی حیثیت کے مطابق توجہ دیتے ہیں مگر اس میں کامیاب نہیں ہوتے ۔ موجودہ وقف بورڈ کی کارکردگی کے تعلق سے بھی جو انکشافات ہورہے ہیں افسوسناک ہیں ۔ موجودہ صدر نشین الحاج محمد سلیم نے حرکیاتی طور پر چند قدم اٹھا کر وقف بورڈ کو ایک فعال ادارہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ وقف بورڈ ملازمین کے تقررات اور بے قاعدگیوں کی سی بی سی آئی ڈی اور ویجلنس ڈپارٹمنٹ کے ذریعہ تحقیقات کرانے کا ارادہ کیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جو خرابیاں اور بدعنوانیاں برسوں سے چلی آرہی تھیں ان کا سخت نوٹ کیوں نہیں لیا گیا ۔ اقلیتی بہبود کے محکموں کے اعلی عہدیداروں میں بہتر تال میل نہ ہونے یا سکریٹریٹ سے مربوط عہدیداروں کے اختیارات نے اقلیتی محکموں کی کارکردگی یا خرابیوں کو ابتر بنادیا ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو آنے والے اسمبلی انتخابات میں ٹی آر ایس کی کامیابی کے لیے اقلیتوں کے ووٹوں کی ضرورت پڑے گی ۔ اس لیے انہیں اپنی باقی حکمرانی کے ایام کو ایک غنیمت سمجھ کر اقلیتی محکموں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے شکایات کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے ۔۔