روہنگیوں کی واپسی کو ٹالنے کے لئے میانمار معاملے کو ملتوی کرنے کا حربہ استعمال کررہا ہے۔ بنگلہ دیش وزیراعظم شیخ حسینہ کا بیان

مذکورہ وزیراعظم نے کہاکہ ان کا ملک پہلے ہی 160ملین آبادی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی مشقت کررہا ہے اور ایسا میں مستقبل پناہ گزین کا بوجھ وہ برداشت نہیں کرسکتا۔
نیویارک۔ رائٹرس کی خبر کے مطابق بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے منگل کے روز روہنگیائی پناہ گزینوں کی ان کے گھر واپسی کے متعلق میانمار پر معاملے کو زیرالتوا رکھنے کا مورد الزام ٹہرایا ہے۔

اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم بنگلہ دیش نے یہ بات کہی ہے۔

اگست 2007 میں میانمار کی فوج کے ساتھ ریاست راکھین میں جھڑپوں کے بعدسات لاکھ سے زائد روہنگیائی مسلمان اپنے ملک سے فرار ی اختیار کرتے ہوئے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے کے لئے مجبور ہیں۔

مذکورہ جھڑپیں مبینہ طور پر ارکان روہنگیائی سالویشن آر می کی جانب سے پولیس پوسٹ او رملٹری تنصیبات پر حملوں کے بعد شروع ہوئی تھیں۔

میانمار روہنگیائیوں کے ساتھ بنگلہ دیش سے آئے غیرقانونی تارکین وطن کا برتاؤ کرتا ہے‘ سرکاری طور پر انہیں مذہبی گروپ کا درجہ بھی فراہم نہیں کیاگیا ہے۔مذکورہ وزیراعظم نے کہاکہ ان کا ملک پہلے ہی 160ملین آبادی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی مشقت کررہا ہے اور ایسا میں مستقبل پناہ گزین کا بوجھ وہ برداشت نہیں کرسکتا۔حسینہ نے کہاکہ ’’میرا ملک او ربوجھ برداشت نہیں کرسکتا‘‘۔

نومبر2017میں بنگلہ دیش اور میانمار دوماہ کے اندر تمام لوگوں کو واپس لے لینے کے متعلق معاہدہ طئے ہوا تھا ۔ اس پر اب تک کوئی پہل نہیں ہوئی او ردونوں ممالک اس کے لئے ایک دوسرے کومورد الزام ٹہرارہے ہیں۔

حسینہ نے کہاکہ ان کا انتظامیہ نہایت صبروتحمل کے ساتھ میانمار کی لیڈر آنگ سانگ سوکی کے ساتھ بات کررہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’ وہ(میانمار) ہر چیز کو منظوری دے رہے ہیں‘ مگر اتفاق کی بات ہے کہ اس پر کوئی عمل نہیں ہورہا ہے ‘جو سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے‘‘۔

رائٹرس کے مطابق میانمار حکومت کے ترجمان زاؤ ہاٹے سے اس ضمن میں ردعمل حاصل کرنے کی کوشش ناکام رہی ہے۔

بین الاقوامی کمیونٹی کایہ ماننا ہے کہ میانمار میں روہنگیائیوں کے خلاف کی جانے والی کاروائی ’’ مذہبی نسل کشی‘‘ ہے