روہنگیا مسلمانوں پر مظالم

سہارے جس قدر ہیں زندگی کے
بہانے موت کے اس سے زیادہ
روہنگیا مسلمانوں پر مظالم
میانمار کے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ ان کی عملا نسل کشی کی جا رہی ہے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ میانمار میں راکھینے ریاست کے 1.1 ملین مسلمان ان دنوں بے طرح مسائل سے دوچار ہیں۔ انہیں نہ خود اپنے وطن میانمار میں پرسکون زندگی گذارنے کا موقع دیا جا رہا ہے اور نہ انہیں کسی پڑوسی ملک میں پناہ دی جا رہی ہے ۔ ان پر جبر و تشدد کیا جا رہا ہے ۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں روہنگیائی مسلمانوں کا قتل کردیا گیا ہے اور اب بھی میانمار فوج رکنے کو تیار نہیں ہے ۔ یہاں نسلی منافرت کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انہیں ملک سے نکال باہر کرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ راکھینے اسٹیٹ کے یہ روہنگیائی مسلمان سطح زمین پر سب سے زیادہ نا پسندیدہ بنادئے گئے ہیں۔ انہیں اپنے ملک سے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور کوئی دوسرا ملک انہیں پناہ دینے کو تیار نہیں ہے ۔ میانمار میں نسلی منافرت کی ایک تاریخ رہی ہے ۔ خود کو امن پسند قرار دینے والے بودھ راہب یہاں دنیا کے سب سے بڑے دہشت گردوں کی طرح کام کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اس کام میں انہیں میانمار فوج کی مکمل تائید حاصل ہے بلکہ فوج ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے کے عمل میں شریک ہوگئی ہے ۔ میانمار میں فوج نے کئی برسوں تک راج کیا ہے اور اس حکومت کے دوران جہاں جمہوری آوازوں کو دبایا جاتا رہا ہے وہیں مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ بھی جاری رہا تھا ۔ ان حالات کو وہاں کے مسلمانوں نے جیسے تیسے جھیل لیا تھا اور جب ملک میں جمہوریت بحال ہوئی تو یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ مسلمانوں کے مسائل اب ختم ہونگے اور انہیں نسلی صفایہ کی مہم کا شکار ہونا نہیںپڑیگا تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کی بحالی کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت اور حملوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے ۔ امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والے آنگ سان سوچی بھی ان حملوں کے تعلق سے خاموش تماشائی بن گئی ہیں۔ وہ خود اپنے ملک میں امن قائم کرنے اور نسلی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے لب کشائی کرنے تک تیار نہیں ہے ۔ وہ اس ظلم و تشدد سے عملا لا پرواہی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
ان کی خاموشی کو خود مغربی ممالک نے بھی نوٹ کیا ہے اور ان پر تنقید کی ہے کہ وہ ملک کی نسلی اقلیت کو تحفظ فراہم کرنے اور انہیں تشدد اور مظالم سے بچانے میں ناکام ہوگئی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ بعض موقعوں پر تو آنگ سانگ سوچی نے جبر و تشدد اور غیر انسانی مظالم ڈھانے والی میانمار کی فوجی کارروائیوں کی مدافعت تک بھی کی ہے ۔ یہ ان کا دوہرا معیار ہے ۔ میانمار کے مسلمان اب اس حالت میں ہیں کہ وہ نہ اپنے ملک میں سکون سے رہ سکتے ہیں اور نہ انہیں کوئی اور ملک پناہ دینے کو تیار ہے ۔ ان مسلمانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد کو میانمار اور بنگلہ دیش کی سرحدات کے مابین No Mans Land میں ڈھکیل دیا گیا ہے ۔ میانمار کی فوج نے راکھینے اسٹیٹ میں کئی گاووںکو تباہ و تاراج کردیا ہے ۔ یہاں بے قصور اور نہتے مسلمانوں کے مکانات نذر آتش کردئے گئے ہیں۔ مردوں اور معصوم بچوں اور خواتین تک کو بخشا نہیں گیا اور انہیں اپنے ساتھ لے جا کر غیر انسانی اذیتیں دی گئیں ۔ ان اذیتیوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے کئی لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس کے باوجود آنگ سان سوچی خاموش رہنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ یہ ان کی بے حسی کی انتہا ہے جبکہ مغربی ممالک نے بھی انہیں جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ اب تک اس طرح کی ساری کوششیں بے سود ہی ثابت ہوئی ہیں۔ راکھینے اسٹیٹ میں جو تازہ ترین تشدد برپا کیا گیا ہے اس کے نتیجہ میں ہزاروں روہنگیا مسلمان وہاں سے فرار ہو گئے ہیں اور مزید ہزاروں فرار اختیار کر رہے ہیں ۔ ان کی حالت زار پر کوئی ملک یا بین الاقوامی تنظیم مدد کیلئے تیار نہیں ہے ۔
سکریٹری جنرل اقوام متحدہ انٹونیو گواٹیرس نے حالانکہ رسمی طور پر ان مسلمانوں کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مسلمانوں کی مدد کیلئے میانمار اور بنگلہ دیش دونوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے بنگلہ دیش سے انسانی بنیادوں پر ان افراد کی مدد کرنے اور انہیں پناہ دینے کی اپیل کی ہے ۔ یہ صرف دکھاوے کا بیان ہے کیونکہ بحیثیت سکریٹری جنرل اقوام متحدہ انہیں میانمار پر اثر انداز ہونا چاہئے کہ وہ مسلمانوں کی نسل کشی کو روکے ۔ ایک طرف تو دنیا بھر میں حقوق انسانی کی دہائی دی جاتی ہے اور محض شبہات کی بنیاد پر مسلم ممالک کو تاراج کردیا جاتا ہے تو دوسری طرف میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی اورغیر انسانی مظالم پر صرف بیان بازی پر اکتفا کیا جارہا ہے ۔ یہ بھی سکریٹری جنرل کا اور اقوام متحدہ کا دوہرا معیار ہے ۔ روہنگیا کے مسلمانوں کے تحفظ کیلئے تمام ذمہ دار ممالک اور اقوام متحدہ کو میانمار پر اثر انداز ہونے کی ضرورت ہے ۔