روہنگیا مسلمانوں پر مظالم

برما میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بڑھتے تشدد اور ظلم و زیادتیوں نے انسانیت کو شرمسار کردیا ہے ۔ عالمی سطح پر روہنگیا مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھنے کے باوجود برما کی حکومت اور فوج کی مجرمانہ خاموشی افسوسناک ہے ۔ مسلم حکمرانی والے ملکوں نے گذشتہ ایک ماہ سے 400 سے زائد روہنگیائی مسلمانوں کی موت پر اقوام متحدہ کی عدم کارروائی کے خلاف احتجاج بھی کیا ۔ ترکی کے صدر اردغان نے دھمکی بھی دی کہ اگر مائنمار کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا تو ان کا ملک اپنے مسلم برادران کی حفاظت کے لیے قدم اٹھائے گا ۔ صدر ایران حسن روحانی کے علاوہ تنظیم اسلامی کانفرنس ( OIC ) نے روہنگیا مسلمانوں کی زندگیوں کے تحفظ اور ان کی سلامتی کو یقینی بنانے پر زور دیا ۔ دراصل مقامی حکومت کی نا اہلی اور بدھسٹوں کو کھلی چھوٹ دینے کے نتیجہ میں مانیمار میں مسلم کش واقعات کو ہوا دی جارہی ہے ۔ ایران نے اس تشدد کی وجہ سے تقریبا 40,000 روہنگیائی مسلمانوں کی پڑوسی ملک بنگلہ دیش کو جان بچا کر فرار ہونے کو ’ نسلی صفایا ‘ سے تعبیر کیا جب کہ ترکی نے اس واقعہ کو نسل کشی بتایا ہے ۔ اس سنگین مسئلہ پر جب تک عالمی ادارہ اقوام متحدہ کی آواز نہیں اٹھتی اور سخت اقدامات نہیں کئے جاتے ، مائنمار مسلم پناہ گزینوں کے خلاف بدھسٹ انتہا پسندوں کی ظلم و زیادتیوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔ افسوس اور صدمہ خیز بات یہ ہے کہ اس مسلم کش کارروائیوں کے خلاف عالمی طاقتوں نے خاموشی اختیار کرکے اپنے مسلم دشمن ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ تشدد کی حالیہ لہر نے ہزاروں روہنگیائی مسلمانوں کو موت کے منہ میں ڈھکیل دیا ہے ۔ برما کی فوج کی زیادتیوں سے بچ کر نکلنے والے روہنگیائی مسلمانوں کو بنگلہ دیش میں بھی پناہ نہیں مل سکی ۔ ہندوستانی حکومت نے بھی ان بے بس اور مظلوم مسلمانوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کا معاملہ نہیں کیا ۔

اس میں دو رائے نہیں کہ اس تشدد کے خلاف آواز اٹھانے والے مسلم ملکوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے مگر صرف آواز اٹھانے اور اپنے ہی دائرہ میں رہ کر افسوس کا اظہار کرنے سے مسلم کش فسادات کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ۔ اس انسانیت سوز بحران کا فوری خاتمہ کرنے کے لیے سخت ترین قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ صدر انڈونیشیا جوکو ودودو نے اپنے وزیر خارجہ کو مائنمار کے قائدین سے ملاقات کرنے روانہ کیا مگر اس دورہ کے نتائج بھی افسوسناک ہی سامنے آئے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے ورکرس نے مائنمار کی سرحد عبور کرنے والے روہنگیائی پناہ گزین مسلمانوں کی تعداد 87,000 بتائی ہے ۔ یہ زخمی اور غموں سے چور مسلمان بنگلہ دیش میں داخل ہونے کے منتظر ہیں مگر یہاں بھی انہیں مایوس کیا جارہا ہے ۔ عالمی طاقتیں ہمیشہ یہی آواز دے رہی ہیں کہ دنیا میں اقلیتی طبقہ کو مزید پریشان ہونے نہیں دیا جائے گا جب کہ اس وقت 1.1 ملین روہنگیائی مسلمان مائنمار کے شمال مغربی اسٹیٹ راکھنیے میں موت کے خوفناک چنگل میں پھنس گئے ہیں ۔ جہاں بدھسٹوں کا جنگل راج ہے ۔ مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش بھی اس مسئلہ پر بے بسی کا اظہار کررہا ہے ۔

مائنمار کے ان مسلمانوں کے ساتھ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے غیر قانونی طور پر مقیم شہری کے طور پر برتاؤ کیا جاتا رہا ہے ۔ انہیں حق زندگی سے محروم کردینے اور انسانوں کے لیے ضروری بنیادی سہولتوں سے محروم کردیا گیا ہے ۔ یہ لوگ آزادانہ طور پر چل پھر نہیں سکتے اور نہ ہی اپنے حصہ کی زندگی کو آزادی سے گزار سکتے ہیں ۔انہیں سرکاری تعلیم حاصل نہیں ہے جب کہ سرکاری طاقتیں انہیں تمام حقوق سے دور رکھ کر انسانی مسالخ گاہ کی جانب ڈھکیل چکی ہے ۔ انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیموں اور ملکوں کے لیے مائنمار کی حکومت اور بدھسٹوں کی کارروائیاں غور طلب ہیں ۔ مائنمار کی سیول لیڈر آنگ سان سوکی بھی مسلمانوں کے خلاف بڑھتے تشدد پر خاموش ہیں ۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ جس پر ساری انسانیت ماتم کناں ہے مگر مائنمار کی حکومت اور فوج پر اس کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے ۔ مائنمار کے انسانی حقوق کے علمبرداروں کے بشمول ساری دنیا کے حقوق انسانی کی تنظیموں کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مائنمار کے مسلمانوں کی ہلاکت خیز صورتحال کے خلاف فوری آواز اٹھائیں اور اقوام متحدہ کے ذریعہ مائنمار کی حکومت اور فوج کو انتباہ دیا جائے کہ وہ اپنے ملک کے شہریوں کی زندگیوں اور املاک جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں ۔ روہنگیا مسلم اقلیت پر جاری مظالم کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام مسلم حکمران متحد ہو کر ساری دنیا کو دکھا دیں کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔۔